26. یہاں سے خطاب کا رُخ اہلِ مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو اُسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑ نے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو ان کے باپ اور بھائی بندوں نے دیس نکالا دیا تھا۔ اس غر ض کے لیے دوسرے انبیاء کو چھوڑ کر خاص طور پر حضرت ابراہیم ؑ کے قصّے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتا یا کرتے تھے۔
27. اصل الفاظ ہیں لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰن ، یعنی”شیطان کی عبادت نہ کریں“۔ اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد اور قوم کے دوسرے لوگ عبادت بُتوں کی کرتے تھے، لیکن چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے ، اس لیے حضرت ابراہیم نے ان کی اِس اطاعتِ شیطان کو بھی عبادتِ شیطان قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اُس کی عبادت کا مجرم ہے ، کیونکہ شیطان بہر حال کسی زمانے میں بھی لوگوں کا ”معبود“ (بمعنی معروف) نہیں رہا ہے بلکہ ان کے نام پر ہر زمانے میں لوگ لعنت ہی بھیجتے رہے ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، الکہف، حاشیہ ۴۹ – ۵۰)۔