29. اصل میں لفظ مُخْلَص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں”خالص کیا ہوا“۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے شخص تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنا کر لیا تھا۔
30. ”رسول“کے معنی ہیں”فرستادہ“،” بھیجا ہوا“۔ اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد، پیغام بر ، ایلچی اور سفیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں یہی لفظ یا تو ان ملائکہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کارِ خاص پر بھیجے جاتے ہیں ، یا پھر اُن انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلق کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مامور فرمایا ۔
”نبی“ کے معنی میں اہلِ لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو لفظ نَبَا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی ”خبر دینے والا“ کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کا مادّہ نبُو ہے، یعنی رفعت اور بلندی۔ اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے ”بلند مرتبہ“ اور ”عالی مقام“۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل نبیٔ ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں ، اور انبیاء کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔
پس کسی شخص کو ”رسول نبی“ کہنے کا مطلب یا تو ”عالی مقام پیغمبر“ ہے ، یا ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر“، یا پھر”وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے“۔
قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے ۔ مثلاً سُورۂ حج، رکوع ۷ میں فرمایا وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا ۔۔۔۔۔۔” ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر ۔۔۔۔۔“ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہلِ تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ کوئی بھی رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کو تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول کا لفظ نبی کی بہ نسبت خاص ہے ، یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتاہے، مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا، یا بالفاظِ دیگر انبیاء میں سے رسول کا لفظ اُن جلیل القدر ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا۔ اِسی کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جو امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ۳۱۳ یا ۳۱۵ بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ ۲۴ ہزار بتائی۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں ، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔
31. کوہِ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے۔ چونکہ حضرت موسیٰ مَدْیَنْ سے مصر جاتے ہوئے اُس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہِ طور کے جنوب سے جاتا ہے ، اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہو گا، اس لیے حضرت موسیٰؑ کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو ”داہنی جانب“ فرمایا گیا ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجائے خود پہاڑ کا کوئی دایاں یا بایاں رُخ نہیں ہوتا۔
32. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء ، حاشیہ نمبر ۲۰۶۔
33. حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے بھی پہلے گزرے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعیّن میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے متقدم ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر اوپر گزرا ہے ، آدم کی اولاد، نوح کی اولاد، ابراہیم کی اولاد اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ ، عیسیٰ اور موسیٰ علیہم السّلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ اولادِ ابراہیم ؑ سے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ اولادِ نوحؑ سے، اس کے بعد صرف حضرت ادریسؑ ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اولادِ آدم ؑ سے ہیں۔
مفسّرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک( Enoch ) بتایا گیا ہے ، وہی حضرت ادریس ؑ ہیں ۔ ان کے متعلق بائیبل کا بیان یہ ہے:
”اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔ ۔۔۔۔ اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اُٹھا لیا“۔ (پیدائش، باب ۵ – آیت ۲۱ – ۲۴) ۔
تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، پکارا کہ”اے حنوک، اُٹھو، گوشۂ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو وہ راستہ بتاؤ جس پر ان کو چلنا چاہیے اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے“۔ یہ حکم پا کر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسلِ انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی۔ حنوک ۳۵۳ برس تک نسلِ انسانی پر حکمراں رہے۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں۔ The Talmud Selections, PP. 18-21
34. اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا ، لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ”خدا نے ان کو اُٹھا لیا“، مگر تلمود میں اس کاایک طویل قصّہ بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ”حنوک ایک بگولے میں آتشیں رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے“۔
35. یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے۔ یہ ہر اُمت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے۔ نماز وہ اوّلین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دُور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات ایک قاعدہ ٔ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہو ا ہے۔
36. یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے ۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل رہنے لگے تو جوں جوں یہ غفلت بڑھتی گئی، خواہشاتِ نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکامِ الہٰی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا۔
37. یعنی جس کا وعدہ رحمان نے اس حالت میں کیا ہے کہ وہ جنتیں ان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں۔
38. اصل میں لفظ”سلام“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ ۔ جنت میں جو نعمتیں انسان کو میسّر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہوگی کہ وہاں کوئی بیہودہ اور فضول اور گندی بات سننے میں نہ آئے گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہو گا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہو گا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بُری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مِل جائے گی۔ وہاں آدمی جو کچھ بھی سُنے گا ،بھلی اور معقول اور بجا باتیں ہی سنے گا۔ اِس نعمت کی قدر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسی گندی سوسائیٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیبت ، فتنہ وفساد، شرارت، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ “
39. یہ پورا پیراگراف ایک جملۂ معترضہ ہے جو ایک سلسلہ ٰ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ ٔ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گزر رہے ہیں۔ حضور کو اور آپؐ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو۔جوں جوں وہی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔ اس حالت میں جبریل علیہ السّلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں ۔ پہلے وہ فرمان سُناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکا ر تھا۔ پھر آگے بڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرفِ تسلی بھی، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی۔
یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابنِ جریر ، ابنِ کثیر اور صاحب روح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔
40. یعنی اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں۔ ایک مطیع فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔
41. اصل میں لفظ سَمِی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ”ہم نام“ کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو الٰہ ہے ، کیا کوئی دوسرا لٰہ بھی تمہارے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے اس کے سوا اور راستہ ہی کونسا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو۔