Tafheem ul Quran

Surah 19 Maryam, Ayat 56-64

وَاذۡكُرۡ فِى الۡكِتٰبِ اِدۡرِيۡسَ​ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيۡقًا نَّبِيًّا ۙ ‏ ﴿19:56﴾ وَّرَفَعۡنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا‏ ﴿19:57﴾ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنۡ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ وَمِمَّنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ وَّمِنۡ ذُرِّيَّةِ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡرَآءِيۡلَ وَمِمَّنۡ هَدَيۡنَا وَاجۡتَبَيۡنَا​ ؕ اِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا ۩‏ ﴿19:58﴾ فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ​ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا ۙ‏ ﴿19:59﴾ اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰٓـئِكَ يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ وَلَا يُظۡلَمُوۡنَ شَيۡـئًـا ۙ‏ ﴿19:60﴾ جَنّٰتِ عَدۡنٍ اۨلَّتِىۡ وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ عِبَادَهٗ بِالۡغَيۡبِ​ ؕ اِنَّهٗ كَانَ وَعۡدُهٗ مَاۡتِيًّا‏ ﴿19:61﴾ لَّا يَسۡمَعُوۡنَ فِيۡهَا لَـغۡوًا اِلَّا سَلٰمًا​ؕ وَلَهُمۡ رِزۡقُهُمۡ فِيۡهَا بُكۡرَةً وَّعَشِيًّا‏ ﴿19:62﴾ تِلۡكَ الۡجَـنَّةُ الَّتِىۡ نُوۡرِثُ مِنۡ عِبَادِنَا مَنۡ كَانَ تَقِيًّا‏  ﴿19:63﴾ وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّكَ​ ۚ لَهٗ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡنَا وَمَا خَلۡفَنَا وَمَا بَيۡنَ ذٰ لِكَ​ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا​ ۚ‏ ﴿19:64﴾

56 - اور اِس کتاب میں ادریسؑ 33 کا ذکر کرو۔ وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا 57 - اور اُسے ہم نے بلند مقام پر اُٹھایا تھا۔ 34 58 - یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمٰن کی آیات ان کو سُنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ السجدۃ ۵ 59 - پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا 35 اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، 36 پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔ 60 - البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ 61 - ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنّتیں ہیں جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کر رکھا ہے 37 اور یقیناً یہ وعدہ پُورا ہو کر رہنا ہے۔ 62 - وہاں وہ کوئی بےہُودہ بات نہ سُنیں گے،جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سُنیں گے۔ 38 اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ 63 - یہ ہے وہ جنّت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیز گار رہا ہے۔ 64 - اے محمدؐ، 39 ہم تمہارے ربّ کے حکم کے بغیر نہیں اُترا کرتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا ربّ بھُولنے والا نہیں ہے۔


Notes

33. حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے بھی پہلے گزرے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعیّن میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے متقدم ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر اوپر گزرا ہے ، آدم کی اولاد، نوح کی اولاد، ابراہیم کی اولاد اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ ، عیسیٰ اور موسیٰ علیہم السّلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ اولادِ ابراہیم ؑ سے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ اولادِ نوحؑ سے، اس کے بعد صرف حضرت ادریسؑ ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اولادِ آدم ؑ سے ہیں۔

مفسّرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک( Enoch ) بتایا گیا ہے ، وہی حضرت ادریس ؑ ہیں ۔ ان کے متعلق بائیبل کا بیان یہ ہے:

”اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔ ۔۔۔۔ اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اُٹھا لیا“۔ (پیدائش، باب ۵ – آیت ۲۱ – ۲۴) ۔

تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، پکارا کہ”اے حنوک، اُٹھو، گوشۂ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو وہ راستہ بتاؤ جس پر ان کو چلنا چاہیے اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے“۔ یہ حکم پا کر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسلِ انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی۔ حنوک ۳۵۳ برس تک نسلِ انسانی پر حکمراں رہے۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں۔ The Talmud Selections, PP. 18-21

34. اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا ، لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ”خدا نے ان کو اُٹھا لیا“، مگر تلمود میں اس کاایک طویل قصّہ بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ”حنوک ایک بگولے میں آتشیں رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے“۔

35. یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے۔ یہ ہر اُمت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے۔ نماز وہ اوّلین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دُور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات ایک قاعدہ ٔ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہو ا ہے۔

36. یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے ۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل رہنے لگے تو جوں جوں یہ غفلت بڑھتی گئی، خواہشاتِ نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکامِ الہٰی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا۔

37. یعنی جس کا وعدہ رحمان نے اس حالت میں کیا ہے کہ وہ جنتیں ان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں۔

38. اصل میں لفظ”سلام“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ ۔ جنت میں جو نعمتیں انسان کو میسّر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہوگی کہ وہاں کوئی بیہودہ اور فضول اور گندی بات سننے میں نہ آئے گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہو گا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہو گا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بُری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مِل جائے گی۔ وہاں آدمی جو کچھ بھی سُنے گا ،بھلی اور معقول اور بجا باتیں ہی سنے گا۔ اِس نعمت کی قدر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسی گندی سوسائیٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیبت ، فتنہ وفساد، شرارت، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ “

39. یہ پورا پیراگراف ایک جملۂ معترضہ ہے جو ایک سلسلہ ٰ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ ٔ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گزر رہے ہیں۔ حضور کو اور آپؐ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو۔جوں جوں وہی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔ اس حالت میں جبریل علیہ السّلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں ۔ پہلے وہ فرمان سُناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکا ر تھا۔ پھر آگے بڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرفِ تسلی بھی، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی۔

یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابنِ جریر ، ابنِ کثیر اور صاحب روح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔