Tafheem ul Quran

Surah 19 Maryam, Ayat 65-76

رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا فَاعۡبُدۡهُ وَاصۡطَبِرۡ لِـعِبَادَتِهٖ​ؕ هَلۡ تَعۡلَمُ لَهٗ سَمِيًّا‏ ﴿19:65﴾ وَيَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوۡفَ اُخۡرَجُ حَيًّا‏ ﴿19:66﴾ اَوَلَا يَذۡكُرُ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰهُ مِنۡ قَبۡلُ وَلَمۡ يَكُ شَيۡـئًـا‏  ﴿19:67﴾ فَوَرَبِّكَ لَـنَحۡشُرَنَّهُمۡ وَالشَّيٰطِيۡنَ ثُمَّ لَـنُحۡضِرَنَّهُمۡ حَوۡلَ جَهَـنَّمَ جِثِيًّا​ ۚ‏ ﴿19:68﴾ ثُمَّ لَـنَنۡزِعَنَّ مِنۡ كُلِّ شِيۡعَةٍ اَيُّهُمۡ اَشَدُّ عَلَى الرَّحۡمٰنِ عِتِيًّا​ ۚ‏ ﴿19:69﴾ ثُمَّ لَـنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِيۡنَ هُمۡ اَوۡلٰى بِهَا صِلِيًّا‏ ﴿19:70﴾ وَاِنۡ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ​ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتۡمًا مَّقۡضِيًّا​ ۚ‏ ﴿19:71﴾ ثُمَّ نُـنَجِّى الَّذِيۡنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيۡنَ فِيۡهَا جِثِيًّا‏  ﴿19:72﴾ وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا ۙ اَىُّ الۡفَرِيۡقَيۡنِ خَيۡرٌ مَّقَامًا وَّاَحۡسَنُ نَدِيًّا‏  ﴿19:73﴾ وَكَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ هُمۡ اَحۡسَنُ اَثَاثًا وَّرِءۡيًا‏  ﴿19:74﴾ قُلۡ مَنۡ كَانَ فِى الضَّلٰلَةِ فَلۡيَمۡدُدۡ لَهُ الرَّحۡمٰنُ مَدًّا ۚ​ حَتّٰٓى اِذَا رَاَوۡا مَا يُوۡعَدُوۡنَ اِمَّا الۡعَذَابَ وَاِمَّا السَّاعَةَ ؕ فَسَيَـعۡلَمُوۡنَ مَنۡ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضۡعَفُ جُنۡدًا‏ ﴿19:75﴾ وَيَزِيۡدُ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اهۡتَدَوۡا هُدًى​ؕ وَالۡبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيۡرٌ عِنۡدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيۡرٌ مَّرَدًّا‏ ﴿19:76﴾

65 - وہ ربّ ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں۔ پس تم اُس کی بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ 40 کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اُس کی ہم پایہ؟ 41 ؏۴ 66 - انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاوٴں گا؟ 67 - کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟ 68 - تیرے ربّ کی قسم ، ہم ضرور اِن سب کو اور ان کے ساتھ شیاطین کو بھی 42 گھیر لائیں گے، پھر جہنّم کے گِرد لا کر انھیں گُھٹنوں کے بل گرا دیں گے 69 - پھر ہر گروہ میں سے ہر اُس شخص کو چھانٹ لیں گے جو رحمٰن کے مقابلے میں زیادہ سرکش بنا ہوا تھا، 43 70 - پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے بڑھ کر جہنّم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے۔ 71 - تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنّم پر وارد نہ ہو، 44 یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے ربّ کا ذِمّہ ہے۔ 72 - پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں)متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گِرا ہُوا چھوڑ دیں گے۔ 73 - اِن لوگوں کو جب ہماری کھُلی کھُلی آیات سُنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ”بتاوٴ ہم دونوں گروہوں میں کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں؟“ 45 74 - حالانکہ اِن سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو اِن سے زیادہ سروسامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں اِن سے بڑھی ہوئی تھیں۔ 75 - اِن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے اُسے رحمٰن ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے ۔۔۔۔ خواہ وہ عذابِ الہٰی ہو یا قیامت کی گھڑی ۔۔۔۔ تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور! 76 - اِس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے 46 اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔


Notes

40. یعنی اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں۔ ایک مطیع فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔

41. اصل میں لفظ سَمِی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ”ہم نام“ کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو الٰہ ہے ، کیا کوئی دوسرا لٰہ بھی تمہارے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے اس کے سوا اور راستہ ہی کونسا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو۔

42. یعنی اُن شیاطین کو جن کے یہ چیلے بنے ہوئے ہیں، اور جن کے سکھائے پڑھائے میں آکر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں جہاں ہمیں خدا کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔

43. یعنی باغی گروہ کا لیڈر۔

44. وارد ہونے کے معنی بعض روایات میں داخل ہونے کے بیان کیے گئے ہیں ، مگر ان میں سے کسی کی سند بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچتی۔ اور پھر یہ بات قران مجید اور اُن کثیر التعداد صحیح احادیث کے بھی خلا ف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ مزید برآں لغت میں بھی ورود کے معنی دخول کے نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر گزر تو سب کا ہو گا مگر ،جیسا کہ بعد والی آیت بتا رہی ہے ، پرہیز گار لوگ اس سے بچا لیے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیے جائیں گے۔

45. یعنی ان کا استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو، دنیا میں کون اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ کس کے گھر زیادہ شاندا ر ہیں؟ کس کا معیارِ زندگی زیادہ بلند ہے؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسّر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اُڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و درماندہ رہتے؟ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد سوم، الکہف حواشی ۳۷، ۳۸۔

46. یعنی ہر آزمائش کے موقع پر اللہ تعالیٰ ان کو صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشتا ہے ، اُن کو بُرائیوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے وہ برابر راہِ راست پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔