42. یعنی اُن شیاطین کو جن کے یہ چیلے بنے ہوئے ہیں، اور جن کے سکھائے پڑھائے میں آکر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں جہاں ہمیں خدا کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔
43. یعنی باغی گروہ کا لیڈر۔
44. وارد ہونے کے معنی بعض روایات میں داخل ہونے کے بیان کیے گئے ہیں ، مگر ان میں سے کسی کی سند بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچتی۔ اور پھر یہ بات قران مجید اور اُن کثیر التعداد صحیح احادیث کے بھی خلا ف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ مزید برآں لغت میں بھی ورود کے معنی دخول کے نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر گزر تو سب کا ہو گا مگر ،جیسا کہ بعد والی آیت بتا رہی ہے ، پرہیز گار لوگ اس سے بچا لیے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیے جائیں گے۔
45. یعنی ان کا استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو، دنیا میں کون اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ کس کے گھر زیادہ شاندا ر ہیں؟ کس کا معیارِ زندگی زیادہ بلند ہے؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسّر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اُڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و درماندہ رہتے؟ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد سوم، الکہف حواشی ۳۷، ۳۸۔
46. یعنی ہر آزمائش کے موقع پر اللہ تعالیٰ ان کو صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشتا ہے ، اُن کو بُرائیوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے وہ برابر راہِ راست پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
47. یعنی وہ کہتا ہے کہ تم مجھے خواہ کتنا ہی گمراہ و بدکار کہتے رہو اور عذابِ الہٰی کے ڈراوے دیا کرو ، میں تو آج بھی تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور آئندہ بھی مجھ پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی۔ میری دولت دیکھو، میری وجاہت اور ریاست دیکھو، میرے نا مور بیٹوں کو دیکھو، میری زندگی میں آخر تمہیں کہاں یہ آثار نظر آتے ہیں کہ میں خدا کا مغضوب ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ مکّے میں کسی ایک شخص کے خیالات نہ تھے ، بلکہ کفارِ مکّہ کا ہرشیخ اور سردار اسی خبط میں مبتلا تھا۔
48. یعنی اس کے جرائم کے ریکارڈ میں اس کا یہ کلمہ ٔ غرور بھی شامل کر لیا جائے گا اور اس کا مزا بھی اسے چکھنا پڑے گا۔
49. اصل میں لفظ عِزًّا استعمال ہوا ہے، یعنی وہ ان کے لیے سببِ عزّت ہوں۔ مگر عزّت سے مراد عربی زبان میں کسی شخص کا ایسا طاقت ور اور زبردست ہونا ہے کہ اس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے اور ایک شخص کا دوسرے شخص کے لیے سببِ عزت بننا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس کی حمایت پر ہو جس کی وجہ سے اس کا کوئی مخالف اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکے۔
50. یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے کبھی اِن سے کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو ، اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔