Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 1-7

الٓمّٓۚ‏ ﴿2:1﴾ ذٰ لِكَ الۡڪِتٰبُ لَا رَيۡبَ ۛۚ   ۖ فِيۡهِ ۛۚ هُدًى لِّلۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ ﴿2:2﴾ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَيۡبِ وَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَۙ‏ ﴿2:3﴾ وَالَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِمَۤا اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَۚ وَبِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ يُوۡقِنُوۡنَؕ‏ ﴿2:4﴾ اُولٰٓـئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ​ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏  ﴿2:5﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿2:6﴾ خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡ​ؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ  وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿2:7﴾

1 - الف،لام،میم1 ۔ 2 - یہ اللہ کی کتاب ہے ،اس میں کوئی شک نہیں2 ہے۔ہدایت ہے اُن پرہیزگاروں کے3 لئے 3 - جو غیب پر ایمان لاتے4 ہیں،نماز قائم کرتے ہیں5،جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں6، 4 - جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتےہیں7، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں8، 5 - ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 6 - جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا،9اُن کے لئے یکساں ہے،خواہ تم انہیں خبردار کرویا نہ کرو،بہر حال وہ ماننے والےنہیں۔ 7 - اللہ نے اُن کے دلوں اور ان کے کانوں پر مُہرلگادی ہے10 اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیاہے۔وہ سخت سزا کے مستحق ہیں ۔     ؏۱


Notes

1- یہ حُرُوف ِ مُقَطعَات قرآن مجید کی بعض سُورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں ۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اُس دَور کے اسالیبِ بیان میں اس طرح کے حُرُوف ِ مُقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اِس اُسْلوب سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ اب بھی کلامِ جاہلیّت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اِس استعمال عام کی وجہ سے یہ مُقطعات کوئی چیستا ں نہ تھےجس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بے معنی حرُوف کیسے ہیں جو تم بعض سُورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہء کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں اُسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسّرین کے لیے ان کے معانی متعیّن کرنا مشکل ہوگیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حُرُوف کا مفہُوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے ۔ اور نہ یہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہِ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔

2- اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ”بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔“ مگر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دُنیا میں جتنی کتابیں اُمورِ مابعد الطبیعت اور حقائق ِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سےپاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علمِ حقیقت پر مبنی ہے ، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں ، یہ دُوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔

3- یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی ، مگر اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چندصفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صِفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار“ ہو۔ بَھلائی اور بُرائی میں تمیز کرتا ہو۔ بُرائی سے بچناچاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دُنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں ، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہشِ نفس دھکیل دے ، یا جدھر قدم اُٹھ جائیں ، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔

4- یہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے دُوسری شرط ہے۔ ”غیب“ سے مُراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات و صفات ، ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ اِن حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سُونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جا سکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔

5- یہ تیسری شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اور عملی اطاعت کی اوّلین علامت اور دائمی علامت نماز ہے۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مُوٴَذِّن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کےلیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ پھر یہ مُوٴَذِّن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے ، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبّیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ مدّعی ایمان اطاعت سے خارج ہو گیا ہے۔ پس ترکِ نماز دراصل ترکِ اطاعت ہے ، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اُس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے۔

یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ ایک جامع اِصلاح ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اِس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے۔

6- یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں اُنہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔

7- یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی اُن تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ اُن سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں ، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں ، مگر صرف اُس کتاب یا اُن کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہیں اُسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دُوسری ہدایات تو وہ اُن کو قبول کرنے سے انکار کردیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء فیض صرف اُن لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصّب میں بھی مُبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستا ر ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔

7- یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی اُن تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ اُن سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں ، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں ، مگر صرف اُس کتاب یا اُن کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہیں اُسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دُوسری ہدایات تو وہ اُن کو قبول کرنے سے انکار کردیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء فیض صرف اُن لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصّب میں بھی مُبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستا ر ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔

8- یہ چھٹی اور آخری شرط ہے۔ ”آخرت“ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے ۔ اس میں حسبِ ذیل عقائد شامل ہیں:

(۱) یہ کہ انسان اِس دُنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

(۲) یہ کہ دُنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے ، اس کا خاتمہ ہوجا ئے گا۔

(۳) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دُوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوعِ انسانی کو جو ابتدا ئے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔

(۴) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رُو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنّت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

(۵) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بدحالی نہیں ہے، بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے ، اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔

عقائد کے اِس مجمو عے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔

9- یعنی وہ چھ کی چھ شرطیں، جِن کا ذکر اُوپر ہوا ہے ، پوری نہ کیں، اور ان سب کو ، یا اِن میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے سے انکارکر دیا۔

10- اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مُہر لگا دی تھی، اِس لیے اُنہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب اُنہوں نے اُن بنیادی اُمور کو رد کر دیا جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دُوسرا راستہ پسند کر لیا ، تو اللہ نے اُن کے دِلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی۔ اِس مُہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اُس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کر دیتا ہے ، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے ، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے۔