113- یعنی مشرکینِ عرب۔
114- یعنی بجائے اس کے کہ عبادت گاہیں اس قسم کے ظالم لوگوں کے قبضہ و اقتدار میں ہوں اور یہ اُن کے متولّی ہوں، ہونا یہ چاہیے کہ خدا پرست اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار ہو اور وہی عبادت گاہوں کے متولّی رہیں، تاکہ یہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں بھی ، تو انہیں خوف ہو کہ شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے۔۔۔۔ یہاں ایک لطیف اشارہ کفارِ مکّہ کے اِس ظلم کی طرف بھی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے اُن لوگوں کو جو اسلام لا چکے تھے، بیت اللہ میں عبادت کرنے سے روک دیا تھا۔
115- یعنی اللہ نہ شرقی ہے، نہ غربی۔ وہ تمام سمْتوں اور مقاموں کا مالک ہے، مگر خود کسی سمت یا کسی مقام میں مقید نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی عبادت کے لیے کسی سمْت یا کسی مقام کو مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ وہاں یا اس طرف رہتا ہے۔ اور نہ یہ کوئی جھگڑنے اور بحث کرنے کے قابل بات ہے کہ پہلے تم وہاں یا اس طرف عبادت کرتے تھے، اب تم نے اس جگہ یا سمْت کو کیوں بدل دیا۔
116- یعنی اللہ تعالیٰ محدُود، تنگ دل، تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہے ، جیسا کہ تم لوگوں نے اپنے اوپر قیاس کر کے اسے سمجھ رکھا ہے، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع ہے اور اس کا زاویہء نظر اور دائرہٴ فیض بھی وسیع اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ کہاں کس وقت کس نیت سے اس کو یاد کر رہا ہے۔
117- اُن کا مطلب یہ تھا کہ خدا، یا تو خود ہمارے سامنے آکر کہے کہ یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے احکام ہیں، تم لوگ ان کی پیروی کرو ، یا پھر ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائی جائے ، جس سے ہمیں یقین آجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے۔
118- یعنی آج کے گمراہوں نے کو ئی اعتراض اور کوئی مطالبہ ایسا نہیں گھڑا ہے، جو ان سے پہلے کے گمراہ پیش نہ کر چکے ہوں۔ قدیم زمانے سے آج تک گمراہی کا ایک ہی مزاج ہے اور وہ بار بار ایک ہی قسم کے شہبات اور اعتراضات اور سوالات دُہراتی رہتی ہے۔
119- یہ بات کہ خدا خود آکر ہم سے بات کیوں نہیں کرتا، اس قدر مہمل تھی کہ اس کا جواب دینے کی حاجت نہ تھی۔ جواب صرف اس بات کا دیا گیا ہے کہ ہمیں نشانی کیوں نہیں دکھائی جاتی۔ اور جواب یہ ہے کہ نشانیاں تو بے شمار موجود ہیں ، مگر جو جاننا چاہتا ہی نہ ہو ، اسے آخر کونسی نشانی دکھائی جا سکتی ہے۔
120- یعنی دُوسری نشانیوں کا کیا ذکر، نمایاں ترین نشانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شخصیّت ہے۔ آپ ؐ کے نبوّت سے پہلے کے حالات، اور اُس قوم اور ملک کے حالات جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے، اور وہ حالات جن میں آپ نے پرورش پائی اور ۴۰ برس زندگی بسر کی، اور پھر وہ عظیم الشان کارنامہ جو نبی ؐ ہونے کے بعد آپ نے انجام دیا ، یہ سب کچھ ایک ایسی روشن نشانی ہے جس کے بعد کسی اور نشانی کی حاجت نہیں رہتی۔
121- مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ناراضی کا سبب یہ تو ہے نہیں کہ وہ سچے طالبِ حق ہیں اور تم نے ان کے سامنے حق کو واضح کر نے میں کچھ کمی کی ہے۔ وہ تو اس لیے تم سے ناراض ہیں کہ تم نے اللہ کی آیات اور اس کے دین کے ساتھ وہ منافقانہ اور بازی گرانہ طرزِ عمل کیوں اختیار نہ کیا، خدا پرستی کے پردے میں وہ خود پرستی کیوں نہ کی ، دین کے اُصُول و احکام کو اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے میں اُس دیدہ دلیری سے کیوں نہ کام لیا ، وہ ریاکاری اور گندم نمائی و جو فروشی کیوں نہ کی، جو خود ان کا اپنا شیوہ ہے۔ لہٰذا انھیں راضی کرنے کی فکر چھوڑ دو، کیونکہ جب تک تم ان کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کر لو، دین کے ساتھ وہی معاملہ نہ کرنے لگو، جو خود یہ کرتے ہیں، اور عقائد و اعمال کی اُنہیں گمراہیوں میں مُبتلا نہ ہو جا ؤ ، جن میں یہ مبتلا ہیں، اُس وقت تک ان کا تم سے راضی ہونا محال ہے۔
122- یہ اہلِ کتاب کے صالح عنصر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ دیانت اور راستی کے ساتھ خدا کی کتاب کو پڑھتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ کتاب اللہ کی رُو سے حق ہے ، اُسے حق مان لیتے ہیں۔