Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 130-141

وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ ​ؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِى الدُّنۡيَا ​ۚ وَاِنَّهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏  ﴿2:130﴾ اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡ​ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿2:131﴾ وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُؕ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَـكُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَؕ‏‏  ﴿2:132﴾ اَمۡ كُنۡتُمۡ شُهَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِيۡهِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِىۡؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَآئِكَ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۖۚ وَّنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ‏  ﴿2:133﴾ تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡ​ۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ​ۚ وَلَا تُسۡـئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿2:134﴾ وَقَالُوۡا کُوۡنُوۡا هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى تَهۡتَدُوۡا ​ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهٖمَ حَنِيۡفًا ​ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿2:135﴾ قُوۡلُوۡٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنۡزِلَ اِلَيۡنَا وَمَآ اُنۡزِلَ اِلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَمَآ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى وَعِيۡسٰى وَمَآ اُوۡتِىَ النَّبِيُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّهِمۡ​ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ وَنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿2:136﴾ فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَآ اٰمَنۡتُمۡ بِهٖ فَقَدِ اهۡتَدَوْا ​ۚ وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا هُمۡ فِىۡ شِقَاقٍ​ ۚ فَسَيَكۡفِيۡکَهُمُ اللّٰهُ ​ۚ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُؕ‏ ﴿2:137﴾ صِبۡغَةَ اللّٰهِ ​ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبۡغَةً  وَّنَحۡنُ لَهٗ عٰبِدُوۡنَ‏ ﴿2:138﴾ قُلۡ اَ تُحَآجُّوۡنَـنَا فِى اللّٰهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمۡۚ وَلَنَآ اَعۡمَالُـنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُكُمۡۚ وَنَحۡنُ لَهٗ مُخۡلِصُوۡنَۙ‏ ﴿2:139﴾ اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطَ كَانُوۡا هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى​ؕ قُلۡ ءَاَنۡـتُمۡ اَعۡلَمُ اَمِ اللّٰهُ​ ؕ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ كَتَمَ شَهَادَةً عِنۡدَهٗ مِنَ اللّٰهِ​ؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿2:140﴾ تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡ​ۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡ​ۚ وَلَا تُسۡـئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿2:141﴾

130 - اب کو ن ہے ، جو ابراھیمؑ  کے طریقے سے نفرت کرے ؟  جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو ،  اس کے سوا کو ن یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراھیمؑ  تو وہ شخص ہے، جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کا م کےلیے چن لیا تھااور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہو گا۔ 131 - اس کا حال یہ تھاکہ جب اس کے رب نے اس سے کہا، ”مسلم ہوجا 130، “  تو اس نے فوراً کہا ”میں مالک کائنات کا ”مسلم “ہو گیا۔“ 132 - اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب   ؑ 131اپنی اولاد کو کر گیا۔ اس نے کہا تھا کہ ”میرے بچو، اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔132 لہٰذا مرتے دم تک تم مسلم ہی رہنا۔“ 133 - پھر کیا تم اس وقت موجو د تھے جب یعقوبؑ   اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟  اس نے مر تے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا ”بچو!میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ “ ان سب نے جواب دیا ”ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے ، جسے آپ نے  اور آپ کے بزرگوں ابراھیمؑ  ، اسماعیلؑ  اور اسحاقؑ  نے خدا مانا ہےاور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔133 134 - وہ کچھ لوگ تھے ، جو گزر گئے ۔ جو کچھ انھوں نے کمایا ۔ وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے ،وہ تمہارے لیے ہے۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔134 135 - یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے۔ عیسا ئی کہتے ہیں : عیسائی ہو ، تو ہدایت ملے گی ۔ ان سے کہو: ”نہیں ، بلکہ سب کو چھوڑکر ابراھیمؑ  کا طریقہ ۔ اور ابراھیمؑ مشرکوں میں سے نہ تھا۔135 136 - مسلمانو! کہو کہ  ”ہم ایمان لائے او راس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراھیمؑ  ، اسماعیلؑ  ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ اور اولاد  یعقوبؑ   کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰؑ   اور عیسیٰؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتےاور ہم اللہ کے مسلم ہیں 136۔“ 137 - پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں ، جس طرح تم لائے ہو ، تو ہدایت پر ہیں ، اور اگر اس سے منہ پھیریں ، تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑگئے ہیں ۔ لہٰذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے  میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ 138 - کہو:”اللہ کا رنگ اختیار کرو۔137 اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں ۔“ 139 - اے نبی! ان سے کہو: ”کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو ؟  حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔138 ہمارے اعمال ہمارے لیے تمہارے اعمال تمہارے لیے، اور ہم اللہ ہی کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں ۔139 140 - یا پھر کیا تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراھیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور اولاد یعقو ب ؑ سب کے سب یہودی تھے یا نصرانی تھے؟  کہو ”تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟140 اس شخص سے بڑا ظالم اور کو ن ہو گا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے ؟ تمہاری  حرکات سے اللہ غافل تو نہیں ہے ۔141 141 - وہ کچھ لوگ تھے ،  جو گزر چکے۔ ان کی کمائی ان کےلیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہو گا۔ “ ؏۱۶


Notes

130- مُسْلِم: وہ جو خدا کے آگے سرِ اطاعت خَم کر دے ، خدا ہی کو اپنا مالک، آقا ، حاکم اور معبُود مان لے، جو اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے سپرد کر دے اور اُس ہدایت کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے، جو خدا کی طرف سے آئی ہو۔ اس عقیدے اور اس طرزِ عمل کا نام ”اسلام“ ہے اور یہی تمام انبیاء کا دین تھا جو ابتدائے آفرینش سے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں آئے۔

131- حضرت یعقوب ؑ کا ذکر خاص طور پر اُس لیے فرمایا کہ بنی اسرائیل براہِ راست انھیں کی اولاد تھے۔

132- دین، یعنی طریقِ زندگی، نظام حیات ، وہ آئین جس پر انسان دنیا میں اپنے پُورے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کی بنا رکھے۔

133- بائیبل میں حضرت یعقوب ؑ کی وفات کا حال بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے ، مگر حیرت ہے کہ اس وصیّت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ تَلْموُد میں جو مفصّل وصیّت درج ہے، اس کا مضمون قرآن کے بیان سے بہت مشابہ ہے۔ اس میں حضرت یعقوب ؑ کے یہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں:

”خداوند اپنے خدا کی بندگی کرتے رہنا ، وہ تمہیں اُسی طرح تمام آفات سے بچائے گا، جس طرح تمہارے آبا ؤ اجداد کو بچاتا رہا ہے۔۔۔۔۔ اپنے بچوں کو خدا سے محبت کرنے اور اس کے احکام بجا لانے کی تعلیم دینا تاکہ ان کی مُہلتِ زندگی دراز ہو، کیوں کہ خدا ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے ، جو حق کے ساتھ کام کرتے ہیں، اور اس کی راہوں پر ٹھیک ٹھیک چلتے ہیں۔“ جواب میں اُن کے لڑکوں نے کہا:”جو کچھ آپ نے ہدایت فرمائی ہے ہم اس کے مطابق عمل کریں گے۔ خدا ہمارے ساتھ ہو!“ تب یعقوب ؑ نے کہا”اگر تم خدا کی سیدھی راہ سے دائیں یا بائیں نہ مڑو گے ، تو خدا ضرور تمہارے ساتھ رہے گا۔“

134- یعنی اگرچہ تم اُن کی اولاد سہی، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اُن کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم اُن کے طریقے سے پھر گئے۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ”جو کچھ اُنہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کما ؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے،“ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے، جو خدا کی خوشنودی یا ناراضی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ وہی نتیجہ ہماری کمائِی ہے۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے، اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل وفعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ”کسب“ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔

135- اس جواب کی لطافت سمجھنے کے لیے دو باتیں نگا ہ میں رکھیے: ایک یہ کہ یہُودیّت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں۔ ”یہُودیّت“ اپنے اِس نام اور اپنی مذہبی خصُوصیات اور رسُوم و قواعد کے ساتھ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی۔ اور ”عیسائیت “ جن عقائد اورمخصُوص مذہبی تصوّرات کے مجمُوعے کا نام ہے وہ تو حضرت مسیح ؑ کے بھی ایک مُدت بعد وجود میں آئے ہیں۔ اب یہ سوال خود بخود پیداہوتا ہے کہ اگر آدمی کے برسرِ ہدایت ہونے کا مدار یہُودیّت یا عیسائیت اختیار کرنے ہی پر ہے ، تو حضرت ابراہیم ؑ اور دُوسرے انبیا اور نیک لوگ، جو اِن مذہبوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کو خود یہُودی اور عیسائی بھی ہدایت یافتہ مانتے ہیں، وہ آخر کس چیز سے ہدایت پاتے تھے؟ ظاہر ہے کہ وہ ”یہُودیّت“ اور ”عیسائیت“ نہ تھی۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے کا مدار اُن مذہبی خصُوصیّات پر نہیں ہے، جن کی وجہ سے یہ یہُودی اور عیسائی وغیرہ مختلف فرقے بنے ہیں، بلکہ دراصل اس کا مدار اُس عالمگیر صراطِ مستقیم کے اختیار کرنے پر ہے، جس سے ہر زمانے میں انسان ہدایت پاتے رہے ہیں۔

دُوسرے یہ کہ خود یہُودو نصاریٰ کی اپنی مقدس کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک اللہ کے سوا کسی دُوسرے کی پرستش ، تقدیس ، بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اور ان کا مشن ہی یہ تھا کہ خدائی کی صفات و خصُوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھیرایا جائے۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہُودیت اور نصرانیت دونوں اُس راہِ راست سے منحرف ہوگئی ہیں، جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے تھے، کیونکہ ان دونوں میں شرک کی آمیزش ہو گئی ہے۔

136- پیغمبروں کے درمیان تفریق نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُن کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتے کہ فلاں حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا یہ کہ ہم فلاں کو مانتے ہیں اور فلاں کو نہیں مانتے۔ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر بھی آئے ہیں، سب کے سب ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہِ راست کی طرف بُلانے آئے ہیں۔ لہٰذا جو شخص صحیح معنی میں حق پرست ہے، اُس کے لیے تمام پیغمبر وں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جو لوگ کسی پیغمبر کو مانتے اور کسی کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں اُس پیغمبر کے بھی پیرو نہیں ہیں، جسے وہ مانتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے دراصل اُس عالمگیر صراط ِ مستقیم کو نہیں پایا ہے، جسے حضرت موسی ؑ یا عیسیٰ ؑ یا کسی دُوسرے پیغمبر نے پیش کیا تھا، بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں ۔ اُن کا اصل مذہب نسل پرستی کا تعصّب اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید ہے، نہ کہ کسی پیغمبر کی پیروی۔

137- اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ”ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا“، دوسرے یہ کہ ”اللہ کا رنگ اختیار کرو“۔ مسیحیّت کے ظہُور سے پہلے یہُودیوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جو شخص اُن کے مذہب میں داخل ہوتا، اُسے غُسل دیتے تھے اور اِس غُسل کے معنی ان کے ہاں یہ تھے کہ گویا اس کے گناہ دُھل گئے اور اس نے زندگی کا ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔ یہی چیز بعد میں مسیحیوں نے اختیار کر لی۔ اس کا اصطلاحی نام ان کے ہاں اِسطباغ (بپتسمہ) ہے اور یہ اصطباغ نہ صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اُن کے مذہب میں داخل ہوتے ہیں، بلکہ بچّوں کو بھی دیا جاتا ہے۔ اسی کے متعلق قرآن کہتا ہے ، اس رسمی اصطباغ میں کیا رکھا ہے؟ اللہ کا رنگ اختیار کرو، جو کسی پانی سے نہیں چڑھتا ، بلکہ اس کی بندگی کا طریقہ اختیار کرنے سے چڑھتا ہے۔

138- ”یعنی ہم یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سب کا ربّ ہے اور اسی کی فرمانبرداری ہونی چاہیے۔ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر تم ہم سے جھگڑا کرو؟ جھگڑے کا اگر کوئی موقع ہے بھی، تو وہ ہمارے لیے ہے، نہ کہ تمہارے لیے، کیونکہ اللہ کے سوا دُوسروں کو بندگی کا مستحق تم ٹھیرا رہے ہو نہ کہ ہم۔

” اَ تُحَآ جُّوْنَنَا فِی اللہِ“ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”کیا تمہارا جھگڑا ہمارے ساتھ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ہے“؟ اِس صُورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر واقعی تمہارا یہ جھگڑا نفسانی نہیں ہے ، بلکہ خدا واسطے کا ہے، تو یہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے۔

139- یعنی تم اپنے اعمال کے ذمّے دار ہو اور ہم اپنے اعمال کے ۔ تم نے اگر اپنی زندگی کو تقسیم کر رکھا ہے اور اللہ کے ساتھ دُوسروں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرا کر ان کی پرستش اور اطاعت بجا لاتے ہو ، تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے، اس کا انجام خود دیکھ لو گے۔ ہم تمہیں زبردستی اس سے روکنا نہیں چاہتے ۔ لیکن ہم نے اپنی بندگی، اطاعت اور پرستش کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دیا ہے۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے ، تو خواہ مخواہ کا یہ جھگڑا آپ ہی ختم ہو جائے۔

140- یہ خطاب یہُود و نصاریٰ کے اُن جاہل عوام سے ہے جو واقعی اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ جلیل القدر انبیا سب کے سب یہودی یا عیسائی تھے۔

141- یہ خطاب اُن کے علما سے ہے ، جو خود بھی اس حقیقت سے ناواقف نہ تھے کہ یہودیت اور عیسائیت اپنی موجودہ خصوصیّات کے ساتھ بہت بعد میں پیدا ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود وہ حق کے اپنے ہی فرقوں میں محدُود سمجھتے تھے اور عوام کو اسی غلط فہمی میں مبتلا رکھتے تھے کہ انبیا کے مدّتوں بعد جو عقیدے، جو طریقے اور جو اجتہادی ضابطے اور قاعدے ان کے فقہا ، صوفیہ اور متکلّمین نے وضع کیے، انہیں کی پیروی پر انسان کی فلاح اور نجات کا مدار ہے۔ ان علما سے جب پوچھا جاتا تھا کہ اگر یہی بات ہے، تو حضرت ابراہیم ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ وغیرہ انبیا علیہم السّلام آخر تمہارے اِن فرقوں میں سے کس سے تعلق رکھتے تھے، تو وہ اس کا جواب دینے سے گریز کرتے تھے، کیونکہ ان کا علم انہیں یہ کہنے کی تو اجازت نہ دیتا تھا کہ ان بزرگوں کا تعلق ہمارے ہی فرقے سے تھا۔ لیکن اگر وہ صاف الفاظ میں یہ مان لیتے کہ یہ انبیا نہ یہُودی تھے، نہ عیسائی ، تو پھر ان کی حجّت ہی ختم ہو جاتی تھی۔