149- پہلے فقرے اور دُوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے، جسے سامع خود تھوڑے سے غور و فکر سے بھر سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز جسے پڑھنی ہوگی، اسے بہرحال کسی نہ کسی سمت کی طرف رُخ کرنا ہی ہوگا۔ مگر اصل چیز وہ رُخ نہیں ہے، جس طرف تم مُڑتے ہو، بلکہ اصل چیز وہ بھلائیاں ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہٰذا سَمْت اور مقام کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں فکر بھلائیوں کے حصُول ہی کی ہونی چاہیے۔
150- یعنی ہمارے اس حکم کی پُوری پابندی کرو۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی شخص مقررہ سَمْت کے سوا کسی دُوسری سَمْت کی طرف نماز پڑھتے دیکھا جائے۔ ورنہ تمہارے دُشمنوں کو تم پر یہ اعتراض کرنے کا موقع مل جائے گا کہ کیا خوب اُمّتِ وَسَط ہے، کیسے اچھے حق پرستی کے گواہ بنے ہیں، جو یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہ حکم ہمارے ربّ کی طرف سے آیا ہے اور پھر اس کی خلاف ورزی بھی کیے جاتے ہیں۔
151- نعمت سے مُراد وہی امامت اور پیشوائی کی نعمت ہے، جو بنی اسرائیل سے سَلْب کر کے اس اُمت کو دی گئی تھی۔ دُنیا میں ایک اُمّت کی راست روی کا یہ انتہائی ثمرہ ہے کہ وہ اللہ کے اَمِرتَشْرِیْعِی سے اقوامِ عالم کی رہنما و پیشوا بنائی جائے اور نَوعِ انسانی کو خدا پرستی اور نیکی کے راستے پر چلانے کی خدمت اس کے سپرد کی جائے۔ یہ منصب جس اُمت کو دیا گیا ، حقیقت میں اُس پر اللہ کے فضل و انعام کی تکمیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا یہ حکم دراصل اس منصب پر تمہاری سرفرازی کا نشان ہے، لہٰذا تمہیں اس لیے بھی ہمارے اس حکم کی پیروی کرنی چاہیے کہ ناشکری و نافرمانی کرنے سے کہیں یہ منصب تم سے چھین نہ لیا جائے۔ اس کی پیروی کر و گے، تو یہ نعمت تم پر مکمل کر دی جائے گی۔
152- یعنی اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے یہ اُمید رکھو۔ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ کا اپنی شان ِ بے نیازی کے ساتھ کسی نوکر سے یہ کہہ دینا کہ ہماری طرف سے فلاں عنایت و مہربانی کے اُمیدوار رہو، اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتا ہے کہ وہ ملازم اپنے گھر شادیانے بجوادے اور اسے مبارکبادیاں دی جانے لگیں۔