Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 152-163

فَاذۡكُرُوۡنِىۡٓ اَذۡكُرۡكُمۡ وَاشۡکُرُوۡا لِىۡ وَلَا تَكۡفُرُوۡنِ‏ ﴿2:152﴾ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿2:153﴾ وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ يُّقۡتَلُ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ وَّلٰـكِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿2:154﴾ وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ‏ ﴿2:155﴾ الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ  ۙ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ‏ ﴿2:156﴾ اُولٰٓـئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ​ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿2:157﴾ اِنَّ الصَّفَا وَالۡمَرۡوَةَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰهِۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَيۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِ اَنۡ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ؕ وَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:158﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓـئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ‏ ﴿2:159﴾ اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاَصۡلَحُوۡا وَبَيَّـنُوۡا فَاُولٰٓـئِكَ اَ تُوۡبُ عَلَيۡهِمۡۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿2:160﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَمَاتُوۡا وَهُمۡ كُفَّارٌ اُولٰٓـئِكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ اللّٰهِ وَالۡمَلٰٓـئِكَةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿2:161﴾ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ الۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنۡظَرُوۡنَ‏  ﴿2:162﴾ وَاِلٰهُكُمۡ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ  ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِيۡمُ‏  ﴿2:163﴾

152 - لہٰذا تم مجھے یاد رکھو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو ، کفرانِ نعمت نہ کرو۔ ؏۱۸ 153 - 153اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔154 154 - اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مُردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا 155۔ 155 - اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ 156 - ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے ، تو کہیں کہ ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جا نا ہے156،“ انھیں خوشخبری دے دو ۔ 157 - ان پر ان کے ر ب کی طرف سے  بڑی عنایات ہوں گی،  اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ 158 - یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ لہٰذا جو شخص  بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے157، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان  سعی کر لے158اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا اللہ کو اس کا علم ہے اوروہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔159 159 - جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات  اور ہدایات کو چھپاتے ہیں در آں حال یہ کہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہےاور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔160 160 - البتہ جو اس روش سے باز آجائیں   اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں  اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں ، ان کو میں معا ف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ 161 - جن لوگوں نے کفر کا رویہ161 اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ 162 - اسی لعنت  زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،  نہ ان کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انھیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جا ئے گی ۔ 163 - تمہارا خدا ایک ہی خدا ہےاس رحمٰن اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ۔  ؏۱۹


Notes

153- منصب امامت پر مامور کرنے کے بعداب اس اُمّت کو ضروری ہدایات دی جارہی ہیں۔ مگر تمام دُوسری باتوں سے پہلے انہیں جس پات پر متنبہ کیا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کوئی پھُولوں کا بستر نہیں ہے ، جس پر آپ حضرات لِٹائے جارہے ہوں۔ یہ تو ایک عظیم الشّان اور پُر خطر خدمت ہے، جس کا بار اُٹھانے کے ساتھ ہی تم پر ہر قسم کے مصائب کی بارش ہوگی، سخت آزمائشوں میں ڈالے جا ؤ گے، طرح طرح کے نقصانات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور جب صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے خدا کی راہ میں بڑھے چلے جا ؤ گے، تب تم پر عنایات کی بارش ہوگی۔

154- یعنی اِس بھاری خدمت کا بوجھ اُٹھانے کے لیےجس طاقت کی ضرورت ہے ، وہ تمہیں دو چیزوں سے حاصل ہوگی۔ ایک یہ کہ صبر کی صفت اپنے اندر پرورش کرو۔ دُوسرے یہ کہ نماز کے عمل سے اپنے آپ کو مضبُوط کرو۔ آگے چل کر مختلف مقامات پر اس امر کی تشریحات ملیں گی کہ صبر بہت سے اہم ترین اخلاقی اوصاف کے لیے جامع عنوان ہے۔ اور حقیقت میں یہ وہ کلید ِ کامیابی ہے، جس کے بغیر کوئی شخص کسی مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح آگے چل کر نماز کے متعلق بھی تفصیل سے معلوم ہوگا کہ وہ کِس کِس طرح افرادِ مومنین اور جماعتِ مومنین کو اس کارِ عظیم کے لیے تیار کرتی ہے۔

155- موت کا لفظ اور اس کا تصوّر انسان کے ذہن پر ایک ہمّت شکن اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے اس بات سے منع کیا گیا کہ شُہداء فی سبیل اللہ کو مُردہ کہا جائے، کیونکہ اس سے جماعت کے لوگوں میں جذبہء جہاد و قتال اور رُوحِ جاں فروشی کے سرد پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے بجائے ہدایت کی گئی کہ اہلِ ایمان اپنے ذہن میں یہ تصوّر جمائے رکھیں کہ جو شخص خدا کی راہ میں جان دیتا ہے ، وہ حقیقت میں حیاتِ جاوداں پاتا ہے۔ یہ تصوّر مطابقِ واقعہ بھی ہے اور اس سے رُوحِ شجاعت بھی تازہ ہوتی اور تازہ رہتی ہے۔

156- کہنے سے مُراد صرف زبان سے یہ الفاظ کہنا نہیں ہے ، بلکہ دل سے اس بات کا قائل ہونا ہے کہ ”ہم اللہ ہی کے ہیں“، اس لیے اللہ کی راہ میں ہماری جو چیز بھی قربان ہوئی، وہ گویا ٹھیک اپنے مَصْرَف میں صرف ہوئی، جس کی چیز تھی اسی کے کام آگئی۔ اور یہ کہ” اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹنا ہے“، یعنی بہرحال ہمیشہ اس دُنیا میں رہنا نہیں ہے۔ آخر کار، دیر یا سویر ، جانا خدا ہی کے پاس ہے۔ لہٰذا کیوں نہ اس کی راہ میں جان لڑا کر اس کے حضُور حاضر ہوں۔ یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے نفس کی پرورش میں لگے رہیں اور اسی حالت میں ، اپنی موت ہی کے وقت پر کسی بیماری یا حادثے کے شکار ہو جائیں۔

157- ذُولحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے، اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ماسوا دُوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے ، وہ عُمْرَہ ہے۔

158- “صَفَا اور مَرْوَہ مسجدِ حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیان دَوڑنا منجملہ اُن مَناسِک کے تھا، جو اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مُشرکانہ جاہلیّت پھیل گئی، تو صَفَا پر ”اِساف“ اور مَرْوَہ پر ”نائلہ“ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہلِ عرب تک پہنچی ، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَرْوَہ کی سَعْی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانہء شرک کی ایجاد ہے، اور یہ کہ سَعْی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے۔ نیز حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَرْوَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کر نے کے موقع پر اُن غلط فہمیوں کو دُور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَرْوَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں ، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامات کا تقدس خدا کی جانب سے ہے، نہ کہ اہلِ جاہلیّت کی من گھڑت۔

159- یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہوگا۔

160- علمائے یہود کا سب سے بڑا قصُور یہ تھا کہ اُنہوں نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کے بجائے اس کو ربّیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدُود طبقے میں مقید کر رکھا تھا اور عامّہء خلائق تو درکنار ، خود یہُودی عوام تک کو اس کی ہوا نہ لگنے دیتے تھے۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمراہیاں پھیلیں، تو علما نے نہ صرف یہ کہ اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی ، بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیّت برقرار رکھنے کے لیے ہر اُس ضلالت اور بدعت کو، جس کا رواج عام ہو جاتا ، اپنے قول و عمل سے یا اپنے سکوت سے اُلٹی سندِ جواز عطا کرنے لگے۔ اسی سے بچنے کی تاکید مسلمانوں کو کی جارہی ہے۔ دُنیا کی ہدایت کا کام جس اُمّت کے سپرد کیا جائے، اُس کا فرض یہ ہے کہ اس ہدایت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے، نہ یہ کہ بخیل کے مال کی طرح اسے چھپا رکھے۔

161- ”کفر“ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کرلینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رُو سے کفر کے رویّہ کی مختلف صُورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے، یا اُس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبُود ماننے سے انکار کر دے، یا اسے واحد مالک اور معبُود نہ مانے۔ دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اُس کے احکام اور اُس کی ہدایات کو واحد منبعِ علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے، انہیں تسلیم نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسندیا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانینِ حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں اُن کو، یا اُن میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔ چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکامِ الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے، اور دُنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نا فرمانی ہی پر رکھے۔

یہ سب مختلف طرزِ فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اُس کا دل اپنے مُحسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفرانِ نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے مُحسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے، یا اُس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اُس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی ، نمک حرامی، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔