162- یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اُسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظا م میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کا خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو۔
163- یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں اُن میں سے بعض کو دُوسروں کی طرف منسُوب کرتے ہیں ، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا اُن میں سے بعض حقوق یہ لوگ اُن دُوسرے بناوٹی معبُودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی ، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سُننا اور غیب و شہادت ہر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصُوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اُسی کو مقتدرِ اعلیٰ مانیں، اُسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سَر جُھکائیں، اُسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجُوع کریں، اُسی کو مدد کے لیے پکاریں، اُسی پر بھروسہ کریں، اُسی سے اُمیدیں وابستہ کریں اور اُسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اِسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیّت کے لیے حلال و حرام کے حدُود مقرر کرے ، ان کے فرائض و حقوق معیّن کرے، ان کو امر ونہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کِن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیّت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبعِ قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختا ر سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کُن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رُجوع کریں۔ جو شخص خدا کی اِن صفات میں سے کسی صِفْت کو بھی کسی دُوسرے کی طرف منسُوب کرتا ہے ، اور اُس کے اِن حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دُوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اُسے خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ اِن صفات میں سے کسی صِفْت کا مدّعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے۔
164- یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دُوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔
165- یہاں خاص طور پر گمراہ کرنے والے پیشوا ؤ ں اور لیڈروں اور اُن کے نادان پیرو ؤ ں کے انجام کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس غلطی میں مُبتلا ہو کر پچھلی اُمتّیں بھٹک گئیں اس سے مسلمان ہوشیار رہیں اور رہبروں میں امتیاز کرنا سیکھیں اور غلط رہبری کرنے والوں کے پیچھے چلنے سے بچیں۔