166- یعنی کھانے پینے کے معاملے میں اُن تمام پابندیوں کو توڑ ڈالو جو توہمّات اور جاہلانہ رسموں کی بنا پر لگی ہوئی ہیں۔
167- یعنی ان وہمی رسموں اور پابندیوں کے متعلق یہ خیال کہ یہ سب مذہبی اُمور ہیں جو خدا کی طرف سے تعلیم کیے گئے ہیں، دراصل شیطانی اِغوا کا کرشمہ ہے۔ اس لیے کہ فی الواقع ان کے مِن جانب اللہ ہونے کی کوئی سَنَد موجود نہیں ہے۔
168- یعنی ان پابندیوں کے لیے ان کے پاس کوئی سَنَد اور کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہے کہ باپ دادا سے یُوں ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ نادان سمجھتے ہیں کہ کسی طریقے کی پیروی کے لیے یہ حجّت بالکل کافی ہے۔
169- اس تمثیل کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کی حالت اُن بے عقل جانوروں کی سی ہے جن کے گلّے اپنے اپنے چرواہوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں اور بغیر سمجھے بُوجھے ان کی صدا ؤ ں پر حرکت کرتے ہیں۔ اور دُوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ کرتے وقت ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ گویا جانوروں کو پکارا جا رہا ہے جو فقط آواز سُنتے ہیں ، مگر کچھ نہیں سمجھتے کہ کہنے والا اُن سے کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے جامع استعمال فرمائے ہیں کہ یہ دونوں پہلو اِن کے تحت آجاتے ہیں۔
170- یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پَیرو بن چکے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھُوت چھات، اور زمانہء جاہلیّت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے ، ربّیوں اور پادریوں نے ، جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھا ؤ پیو۔ اسی مضمون کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ مَنْ صَلّٰی صَلوٰ تَنَا و َ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کر تے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رُخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیّت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور اُن توہّمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہلِ جاہلیّت نے قائم کر رکھی تھیں۔ کیونکہ اُس کا اُن پابندیوں پر قائم رہنا اِس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اُس کی رگ و پے میں جاہلیّت کا زہر موجود ہے۔
171- اس کا اطلاق اُس جانور کے گوشت پر بھی ہوتا ہے جسے خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور اُس کھانے پر بھی ہوتا ہے جو اللہ کے سواکِسی اَور کے نام پر بطور نذر کے پکایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور ہو یا غلّہ یا اور کوئی کھانے کی چیز ، دراصل اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ ہی نے وہ چیز ہم کو عطا کی ہے۔ لہٰذا اعترافِ نعمت صدقہ و نذر و نیاز کے طور پر اگر کسی کا نام ان چیزوں پر لیا جا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہی کا نام ہے۔ اس کے سوا کسی دُوسرے کا نام لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم خدا کے بجائے یا خدا کے ساتھ اس کی بالاتری بھی تسلیم کر رہے ہیں اور اس کو بھی مُنعِم سمجھتے ہیں۔
172- اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کرنے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ واقعی مجبُوری کی حالت ہو۔ مثلاً بھُوک یا پیاس سے جان پر بن گئی ہو، یا بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے سوا اور کوئی چیز میسّر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل میں موجود نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے، مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند قطرے یا چند گھونٹ اگر جان پچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے۔
173- مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں یہ جتنے غلط توہّمات پھیلے ہیں اور باطل رسموں اور بے جا پابندیوں کی جو نئی نئی شریعتیں بن گئی ہیں ان سب کی ذمّہ داری ان علما پر ہے جن کے پاس کتابِ الہٰی کا علم تھا مگر انہوں نے عامہء خلائق تک اس علم کو نہ پہنچایا۔ پھر جب لوگوں میں جہالت کی وجہ سے غلط طریقے رواج پانے لگے تو اس وقت بھی وہ ظالم منہ میں گھُنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ بلکہ ان میں سے بہتوں نے اپنا فائدہ اسی میں دیکھا کہ کتاب اللہ کے احکام پر پردہ ہی پڑا رہے۔
174- یہ دراصل ان پیشوا ؤ ں کے جھُوٹے دعووں کی تردید اور ان غلط فہمیوں کا رد ہے جو اُنہوں نے عام لوگوں میں اپنے متعلق پھیلا رکھی ہیں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، اور لوگ بھی ان کے متعلق ایسا ہی گمان رکھتے ہیں کہ ان کی ہستیاں بڑی پاکیزہ اور مقدس ہیں اور جو اُن کا دامن گرفتہ ہو جائے گا اس کی سفارش کر کے وہ اللہ کے ہاں اُسے بخشوا لیں گے۔ جواب میں اللہ فرماتا ہے کہ ہم انھیں ہر گز منہ نہ لگائیں گے اور نہ انھیں پاکیزہ قرار دیں گے۔