Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 177-182

لَيۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓـئِکَةِ وَالۡكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ​ۚ وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ​ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ​ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ وَالصّٰبِرِيۡنَ فِى الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيۡنَ الۡبَاۡسِؕ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ‏ ﴿2:177﴾ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡكُمُ الۡقِصَاصُ فِى الۡقَتۡلٰى  ؕ الۡحُرُّ بِالۡحُـرِّ وَالۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَالۡاُنۡثَىٰ بِالۡاُنۡثٰىؕ فَمَنۡ عُفِىَ لَهٗ مِنۡ اَخِيۡهِ شَىۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَاَدَآءٌ اِلَيۡهِ بِاِحۡسَانٍؕ ذٰلِكَ تَخۡفِيۡفٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَرَحۡمَةٌ  ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰى بَعۡدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۚ‏ ﴿2:178﴾ وَ لَـكُمۡ فِى الۡقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰٓـاُولِىۡ الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ‏  ﴿2:179﴾ كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَكَ خَيۡرَا  ۖۚ اۨلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِۚ حَقًّا عَلَى الۡمُتَّقِيۡنَؕ‏  ﴿2:180﴾ فَمَنۡۢ بَدَّلَهٗ بَعۡدَمَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَآ اِثۡمُهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ يُبَدِّلُوۡنَهٗؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌؕ‏ ﴿2:181﴾ فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿2:182﴾

177 - نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف ،175 بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی  ہوئی  کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے  اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسا فروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰة دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگدستی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔ 178 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارےلیے قتل کے مقدموں میں قصاص176 کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نےقتل کیا ہو تو آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو غلام ہی قتل کیا جائے،اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص177 لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو،178 تو معروف طریقے179 کے مطابق  خوں بہا کا تصفیہ ہو نا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔  یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے،180 اس کے لیےدرد ناک سزاہے۔ 179 - عقل و خردر کھنے والو!تمہارے لیے قصاص  میں زندگی ہے۔181 امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔ 180 - تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔182 181 - پھر  جنھوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا، تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہو گا۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ 182 - البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏۲۲


Notes

175- مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے ، دراصل مقصُود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پُری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے ، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے۔

176- قِصَاص، یعنی خُون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے، جو اُس نے دُوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اُسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اُس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اُس کے ساتھ کیا جائے۔

177- جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خُون اُس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اُسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزّز آدمی اگر دُوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزّز آدمی مارا جائے یا اُس کے کئی آدمی اُن کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ برعکس اس کے اگر مقتول اُن کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزّت رکھنے والا شخص ہوتا ، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیّت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذّب سمجھا جاتا ہے ، اُن کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دُنیا کو سُنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سُنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اُڑائے گئے۔ ایک”مہذّب“ قوم نے اِسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا ۔ دُوسری طرف اِن نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرزِ عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں ، جن کے سدِ باب کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔

178- ”بھائی“ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دُوسرے شخص کے درمیان باپ ماری کا بیر ہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصّے کو پی جا ؤ ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایانِ شان ہے۔۔۔۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانونِ تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا ، معافی کی صُورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا۔

179- ”مَعْرُوْف“ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ صحیح طریقِ کار ہے ، جس سے بالعمُوم انسان واقف ہوتے ہیں، جس کے متعلق ہر وہ شخص ، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو، یہ بول اُٹھے کہ بے شک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریقِ عمل ہے۔ رواجِ عام( Common Law ) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ”عرف“ اور ”معروف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے ، جن کو بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو۔

180- (مثلاً) یہ کہ مقتول کا وارث خون بہا وصُول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے، یا قاتل خون بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے۔

181- یہ ایک دُوسری جاہلیّت کی تردید ہے ، جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ جس طرح اہلِ جاہلیّت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا، اسی طرح ایک دُوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دُنیا کے متعدّد ملکوں نے اسے بالکل منسُوخ کر دیا ہے۔ قرآن اسی پر اہلِ عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کر تا ہے کہ قصاص میں سوسائیٹی کی زندگی ہے۔ جو سوسائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے، وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔

182- یہ حکم اُس زمانے میں دیا گیا تھا ، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصّے بذریعہء وصیّت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے۔ بعد میں جب تقسیمِ وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود ایک ضابطہ بنا دیا ( جو آگے سُورہٴ نساء میں آنے والا ہے)، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احکامِ میراث کی توضیح میں حسبِ ذیل دو قاعدے بیان فرمائے: ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیّت نہیں کر سکتا، یعنی جن رشتے داروں کے حصّے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں، ان کے حصّوں میں نہ تو وصیّت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جاسکتی ہے، نہ کسی وارث کو میراث سے محرُوم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصّے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہء وصیّت دی جا سکتی ہے۔ دُوسرے یہ کہ وصیّت کُل جائداد کے صرف ایک تہائی حصّے کی حد تک کی جا سکتی ہے۔

اِن دو تشریحی ہدایات کے بعد اب اس آیت کا منشا یہ قرار پاتا ہے کہ آدمی اپنا کم از کم دو تہائی مال تو اس لیے چھوڑ دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ حسبِ قاعدہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی حد تک اسے اپنے اُن غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیّت کرنی چاہیے ، جو اس کے اپنے گھر میں یا اس کے خاندان میں مدد کے مستحق ہوں، یا جنہیں وہ خاندان کے باہر محتاجِ اعانت پاتا ہو، یا رفاہِ عام کے کاموں میں سے جس کی بھی وہ مدد کرنا چاہے۔ بعد کے لوگوں نے وصیّت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعمُوم وصیّت کا طریقہ منسُوخ ہی ہو کر رہ گیا۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے، جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے ۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ مثلاً اُن پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں۔