Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 183-188

يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ‏ ﴿2:183﴾ اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَ​ؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:184﴾ شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿2:185﴾ وَاِذَا سَاَلَـكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لِىۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡا بِىۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ‏ ﴿2:186﴾ اُحِلَّ لَـکُمۡ لَيۡلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمۡ​ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمۡ كُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنۡكُمۡۚ فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡهُنَّ وَابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الۡخَـيۡطُ الۡاَبۡيَضُ مِنَ الۡخَـيۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ​ؕ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِ​ۚ وَلَا تُبَاشِرُوۡهُنَّ وَاَنۡـتُمۡ عٰكِفُوۡنَ فِى الۡمَسٰجِدِؕ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَقۡرَبُوۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ‏ ﴿2:187﴾ وَلَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِهَآ اِلَى الۡحُـکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِيۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:188﴾

183 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے ۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔183 184 - چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو تو دُوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں(پھر نہ رکھیں)تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے184 ، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو ، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو۔ 185 185 - رمضان وہ مہینہ ہے ، جس میں قرآن نازل کیا گیا  جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ، جو راہِ راست دکھانے والی  اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص  اس مہینے کو پائے ، اُس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو ، تو وہ دُوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے ۔186 اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے ، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔187 186 - اور اے نبیؐ ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُ نھیں بتا دو کہ میں  اُن سے قریب ہی ہوں۔پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں 188یہ بات تم اُنھیں سُنادو شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔189 187 - تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم  اُن کے لیے۔190 اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چُپکے چُپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ، مگر اُس نے تمہارا قصُور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لُطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کردیا ہے ، اُسے حاصل کرو۔191 نیز راتوں کو کھاوٴ پیو192 یہاں تک کہ تم کو سیاہیِ شب کی دھاری سے سپیدہ ٴ صبح کی دھاری نمایا ں نظر آجائے۔193 تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پُورا کرو ۔194 اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو ، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو ۔195 یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔196 اس طرح اللہ  اپنے احکام لوگوں کے لیے  بصراحت بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ غلط رویےّ سے بچیں گے۔ 188 - اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دُوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاوٴ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دُوسروں کے مال کا کوئی حصہّ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ۔197  ؏۲۳


Notes

183- اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیّت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر سن ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا، مگر ا س میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی وہ روزہ نہ رکھیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دُوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسُوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دُودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے، جن میں روزے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں اُن سے چھُوٹ گئے ہیں۔

184- یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے۔

185- یہاں تک وہ ابتدا ئی حکم ہے ، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ ِ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبتِ مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں۔

186- “سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار ِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے ، اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گِر گیا اور اس کے گِرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقع پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا ۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قو ی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے ، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔ عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ ء کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافر انہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں۔

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔

187- یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیےمخصُوص نہیں کر دیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، اُن کے لیے دُوسرے دنوں میں اُس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اُس نے تم کو دی ہے ، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محرُوم نہ رہ جا ؤ ۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ اُنھیں مزید براں اُس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے ، جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صُورت اگر ہوسکتی ہے ، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزُولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے ، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اِس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔

188- یعنی اگر چہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کر سکتے ہو ، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دُور ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے ، مجھ سے عرض معرُوض کر سکتا ہے، جتّٰی کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اُسے بھی سُن لیتا ہوں اور صرف سُنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الٰہ اور ربّ قرار دے رکھا ہے ، اُن کے پاس تو تمہیں دَوڑ دَوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کو ئی فیصلہ صادر کر سکیں۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں روا ئے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہِ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں ، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رُجوع کرو، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری بندگی و اطاعت میں آجا ؤ ۔

189- یعنی تمہارے ذریعے سے یہ حقیقتِ حال معلوم کر کے اُن کی آنکھیں کھُل جائیں اور وہ اس صحیح رویّے کی طرف آجائیں ، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے۔

190- یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا ، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتّصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے۔

191- ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر نا جائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت اُن کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے بُرا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو۔

192- اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے ۔ کسی کا خیال تھا کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ اُٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اُٹھاتے تھے۔ اِس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلُوعِ فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے۔

193- اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دُنیا میں ہر وقت ہر مرتبہء تمدّن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے اُن آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریقِ توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قُطبَین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علمِ جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اُس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن ، جس معنی میں ہم خطِ استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دَور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پُوری باقاعدگی کے ساتھ اُفق پر نمایاں ہوتے ہیں اور اُنہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی اُفق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دُوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیینِ اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں۔

194- رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروبِ آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروبِ آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصّے میں اُفق کے مشرقی کنارے پر سفیدہٴ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اُوپر بڑھنے لگے، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصّے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار ، دونوں کے معاملے شدّتِ احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدّد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ اِدھر اُدھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہٴ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوعِ فجر کے وقت اس کی آنکھ کھُلی ہو تو وہ جلدی سے اُٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروبِ آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سُورج ڈوبتے ہی بلال ؓ کو آواز دیتے تھے کہ لا ؤ ہمارا شربت۔ بلال ؓ عرض کرتے کہ یا رسُول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ ؐ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اُٹھنے لگے ، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

195- معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کردے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے ، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے۔

196- یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دُور ہی رہے تاکہ بھُولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اُس حدیث میں بیان ہوا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ، فمن رتع حول الحمی، یوشک ان یقع فیہ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اُس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور ؐ فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اُس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حِمیٰ کے گِرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے۔“ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی رُوح سے ناواقف ہیں ، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انھیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اُس باریک خطِ امتیاز ہی پر گھُومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔

197- اس آیت کا ایک مفہُوم تو یہ ہے کہ حا کموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دُوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دُوسرے شخص کا ہے، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جا ؤ ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکمِ عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دِلوا دے۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہو گا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جا ؤ گے۔ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما ان بشر و انتم تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحنَ بحجتہ من بعض، فا قضی لہ علی نحو ما اسمع منہ۔ فمن قضیت لہ بشی ء من حق اخیہ، فا نما ا قضی لہ قطعۃ من النار۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لا ؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سُن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کر و گے۔