Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 189-196

يَسۡـئَلُوۡنَكَ عَنِ الۡاَهِلَّةِ ​ؕ قُلۡ هِىَ مَوَاقِيۡتُ لِلنَّاسِ وَالۡحَجِّ ؕ وَلَيۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُيُوۡتَ مِنۡ ظُهُوۡرِهَا وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰى​ۚ وَاۡتُوا الۡبُيُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِهَا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‏‏‏ ﴿2:189﴾ وَقَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ‏ ﴿2:190﴾ وَاقۡتُلُوۡهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ اَخۡرَجُوۡكُمۡ​ وَالۡفِتۡنَةُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِۚ وَلَا تُقٰتِلُوۡهُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوۡكُمۡ فِيۡهِ​ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡكُمۡ فَاقۡتُلُوۡهُمۡؕ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿2:191﴾ فَاِنِ انۡـتَهَوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿2:192﴾ وَقٰتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ لِلّٰهِ​ؕ فَاِنِ انتَهَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿2:193﴾ اَلشَّهۡرُ الۡحَـرَامُ بِالشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ وَالۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ​ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿2:194﴾ وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ  ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا  ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿2:195﴾ وَاَتِمُّوا الۡحَجَّ وَالۡعُمۡرَةَ لِلّٰهِؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَيۡسَرَ مِنَ الۡهَدۡىِ​ۚ وَلَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَكُمۡ حَتّٰى يَبۡلُغَ الۡهَدۡىُ مَحِلَّهٗ ؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ بِهٖۤ اَذًى مِّنۡ رَّاۡسِهٖ فَفِدۡيَةٌ مِّنۡ صِيَامٍ اَوۡ صَدَقَةٍ اَوۡ نُسُكٍۚ فَاِذَآ اَمِنۡتُمۡ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَةِ اِلَى الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَيۡسَرَ مِنَ الۡهَدۡىِ​ۚ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ فِى الۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡؕ تِلۡكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ  ؕ ذٰ لِكَ لِمَنۡ لَّمۡ يَكُنۡ اَهۡلُهٗ حَاضِرِىۡ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ​ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿2:196﴾

189 - لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو : یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین  کی اور حج کی علامتیں ہیں۔198 نیز ان  سےکہو : یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو۔نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازےہی سے آیا کرو۔  البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔  شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے۔199 190 - اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں200 ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا 201۔ 191 - ان سے لڑو جہاں بھی  تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے،  اس لیے کہ قتل  اگرچہ بُرا ہے، مگر فتنہ اس سے زیادہ بُرا ہے۔202 اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں ، تم بھی نہ لڑو،  مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں، تو تم بھی بے تکلف انھیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔ 192 - پھر اگر وہ باز آجائیں، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے۔203 193 - تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔204 پھر اگر وہ باز آجائیں ،  تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں ۔205 194 - ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔206 لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے، تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو ۔  البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انھیں لوگوں کے ساتھ ہے،  جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ 195 - اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔207  احسان کا  طریقہ اختیا ر کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔208 196 - اللہ کی خوشنودی کے لیے  جب حج اور عمرے کی نیت کر و،  تو اسے پورا کرو،  اور اگر کہیں گر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو209 اور اپنےسر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔210مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اس بناء پر اپنا سر منڈوالے، تو اسے چاہیے کہ فدیہ کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔211 پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جا ئے212(اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ جاؤ )، تو جو شخص تم میں  سے حج کا زمانہ آنے تک  عمرے کا فائدہ اٹھائے ، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو ، تو تین روزے حج کے زمانے میں  اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت ان لوگو ں کے لیے ہے ، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔213 اور اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ ؏۲۴


Notes

198- چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دُنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہلِ عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا بُرے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے، یہ سب باتیں دُوسری جاہل قوموں کی طرح اہلِ عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں اُن میں رائج تھیں۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کی گئی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے ، جو آسمان پر نمودار ہو کر دُنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرما یا کہ عرب کی مذہبی، تمدّنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے۔ اِن مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے۔

199- منجملہ ان توہّم پرستانہ رسموں کے ، جو عرب میں رائج تھیں، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے، بلکہ پیچھے سے دیوار کُود کر یا دیوار میں کھڑکی سی بنا کر داخل ہوتے تھے۔ نیز سفر سے واپس آکر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے، بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے۔ اُن بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں ، جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

200- یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں، اور اس بنا پر تمہارے دُشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظامِ زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں، ان سے جنگ کرو۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے، ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلے مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوتِ اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو۔ اس کے بعد ہی جنگ ِ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

201- یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو، نہ اُن لوگوں پر ہاتھ اُٹھا ؤ ، جو دینِ حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیّت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مُثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دُوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ” حد سے گزرنے“ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے ، جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اُسی حد تک کیا جائے ، جتنی اس کی ضرورت ہو۔

202- یہاں فتنے کا لفظ اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے ، جس میں انگریزی کا لفظ ( Persecution ) استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کہ اس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ کچھ دُوسرے خیالات و نظریات کو حق پا کر قبول کر لیاہے اور وہ تنقید و تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجود الوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ بلا شبہ انسانی خون بہانا بہت بُرا فعل ہے ، لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دُوسروں پر مسلّط کرے اور لوگوں کو قبولِ حق سے بجبر روکے اور اصلاح و تغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے ، تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت بُرائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزورِ شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے۔

203- یعنی تم جس خدا پر ایمان لائے ہو، اس کی صفت یہ ہے کہ بدتر سے بدتر مجرم اور گناہ گار کو بھی معاف کر دیتا ہے، جبکہ وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائے ۔ یہی صفت تم اپنے اندر بھی پیدا کرو۔ تخلّقو ا با خلاق اللہ ۔تمہاری لڑائی انتقام کی پیاس بُجھانے کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کے دین کا راستہ صاف کرنے کے لیے ہو۔ جب تک کوئی گروہ راہِ خدا میں مزاحم رہے، بس اُسی وقت تک اس سے تمہاری لڑائی بھی رہے، اور جب وہ اپنا رویہ چھوڑ دے، تو تمہارا ہاتھ بھی پھر اُس پر نہ اُٹھے۔

204- یہاں فتنہ کا لفظ اُوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ” فتنے“ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ”دین“ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی” اطاعت“ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام ِ زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اُس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت ، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مِطمح نظر یہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانونِ الہٰی کے مطیع بن کر رہیں۔

205- باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے۔ کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اُسے یہ حق ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسبِ موقع اور حسب ِ امکان، تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا ، جب تک کفّار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں۔

اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں، تو ”ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو“ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظامِ باطل کی جگہ نظامِ حق قائم ہو جائے، تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہلِ حق بالکل حق بجانب ہوں گے، جنہوں نے اپنے دَورِ اقتدار میں نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنینِ صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو اُن کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اُٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایانِ شان نہ تھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عُقْبہ بن ابی مُعَیط اور نَضْر بن حارث کا قتل اور فتح ِ مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفوِ عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔

206- اہلِ عرب میں حضرت ابراہیم ؑ کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ، ذی الحجّہ اور مُحَرَّم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عُمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا ، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین ِ کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں۔ اِس بنا پر اِن مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا، یعنی حرمت والے مہینے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہِ حرام کی حُرمت کا لحاظ کفار کریں، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں ، تو پھر مسلمان بھی ماہِ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔

اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہلِ عرب نے جنگ و جدل اور لُوٹ مار کی خاطر نَسِی کا قاعدہ بنا رکھا تھا، جس کی رُو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے، تو کسی حرام مہینے میں اُس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دُوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پُورا کر دیتے تھے۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفّار اپنے نَسِی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں، تو اُس صُورت میں کیا کیا جائے۔ اسی سوال کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔

207- اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مُراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گےا ور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے، تو یہ تمہارے لیے دُنیا میں بھی موجب ِ ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں تم کفّار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت بار پرس ہو گی۔

208- احسان کا لفظ حُسن سے نِکلا ہے، جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو، اُسے بس کردے۔ اور دُوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے، اپنی پُوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے، جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے۔ اور دُوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے، جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگا ؤ درکار ہوتا ہے۔

209- یعنی اگر راستے میں کوئی ایسا سبب پیش آجائے ، جس کی وجہ سے آگے جانا غیر ممکن ہو اور مجبوراً رُک جانا پڑے، تو اُونٹ، گائے، بکری میں سے جو جانور بھی میسّر ہو، اللہ کے لیے قربان کر دو۔

210- اس امر میں اختلاف ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پہنچ جانے سے کیا مراد ہے۔ فقہائے حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد حرم ہے، یعنی اگر آدمی راستہ میں رُک جانے پر مجبُور ہو، تو اپنی قربانی کا جانور یا اس کی قیمت بھیج دے تاکہ اس کی طرف سے حُدودِ حرم میں قربانی کی جائے۔ اور امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک جہاں آدمی گھِر گیا ہو، وہیں قربانی کردینا مراد ہے۔

سر مونڈنے سے مراد حجامت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک قربانی نہ کر لو حجامت نہ کرا ؤ ۔

211- حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں تین دن کے روزے رکھنے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانے یا کم از کم ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔

212- یعنی وہ سبب دُور ہو جائے ، جس کی وجہ سے مجبُوراً تمہیں راستے میں رُک جانا پڑا تھا۔ چونکہ اُس زمانے میں حج کا راستہ بند ہونے اور حاجیوں کے رُک جانے کی وجہ زیادہ تر دشمنِ اسلام قبیلوں کی مزاحمت ہی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُوپر کی آیت میں ”گھِر جانے“ اور اس کے بالمقابل یہاں”امن نصیب ہوجانے“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لیکن جس طرح”گھِر جانے“ کے مفہوم میں دشمن کی مزاحمت کے علاوہ دُوسرے تمام موانع شامل ہیں، اسی طرح ”امن نصیب ہو جانے“ کا مفہُوم بھی ہر مانع و مزاحم چیز کے دُور ہو جانے پر حاوی ہے۔

213- عرب جاہلیّت میں یہ خیال کیا جا تا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عُمرہ دونوں ادا کرنا گناہِ عظیم ہے۔ ان کی خود ساختہ شریعت میں عُمرے کے لیے الگ اور حج کےلیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اُڑا دیا اور باہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عُمرہ اور حج دونوں کر لیں۔ البتہ جو لوگ مکّہ کے آس پاس میقاتوں کی حُدود کے اندر رہتے ہوں انھیں اس رعایت سے مستثنیٰ کر دیا کیونکہ ان کے لیے عُمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں۔

حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اُٹھانے سے مُراد یہ ہے کہ آدمی عُمرہ کر کے اِحرام کھول لے اور اُن پابندیوں سے آزاد ہو جائے ، جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں۔ پھر جب حج کے دن آئیں، تو ازسرِ نو احرام باندھ لے۔