214- احرام کی حالت میں میاں اور بیوی کے درمیان نہ صرف تعلقِ زن و شو ممنوع ہے، بلکہ اُن کے درمیان کوئی ایسی گفتگو بھی نہ ہونی چاہیے ، جو رغبتِ شہوانی پر مبنی ہو۔
215- تمام معصیت کے افعال اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں، لیکن احرام کی حالت میں ان کا گناہ بہت سخت ہے۔
216- حتیٰ کہ خادم کو ڈانٹنا تک جائز نہیں۔
217- جاہلیّت کے زمانے میں حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دُنیا دارانہ فعل سمجھا جاتا تھا اور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دُنیا کا سامان لیے بغیر جائے گا۔ اس آیت میں اُن کے اِس غلط خیال کی تردید کی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ زادِ راہ نہ لینا کوئی خوبی نہیں ہے۔ اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہو کر بُرے اعمال کر تا ہے، وہ اگر زادِ راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہو گا اور اپنے اُس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا، جس کے لیے وہ سفر کر رہا ہے۔ لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں، تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزّت ہوگی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو۔
218- یہ بھی قدیم عربوں کا ایک جاہلانہ تصوّر تھا کہ سفر ِ حج کے دَوران میں کسبِ معاش کے لیے کام کرنے کو وہ بُرا سمجھتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک کسبِ معاش ایک دُنیا دارانہ فعل تھا اور حج جیسے ایک مذہبی کام کے دَوران میں اس کا ارتکاب مذموم تھا۔ قرآن اس خیال کی تردید کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ایک خدا پرست آدمی جب خدا کے قانون کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، تو دراصل اپنے ربّ کا فضل تلاش کرتا ہے اور کوئی گناہ نہیں، اگر وہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے سفر کرتے ہوئے اس کا فضل بھی تلاش کرتا جائے۔
219- یعنی جاہلیّت کے زمانے میں خدا کی عبادت کے ساتھ جن دُوسرے مشرکانہ اور جاہلانہ افعال کی آمیزش ہوتی تھی ان سب کو چھوڑ دو اور اب جو ہدایت اللہ نے تمہیں بخشی ہے، اس کے مطابق خالصتًہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔
220- “حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معرُوف طریقہء حج یہ تھا کہ ۹ ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْ دلفہ میں ٹھیرتے تھے۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیّت قائم ہو گئی ، تو انہوں نے کہا: ہم اہل ِ حرم ہیں، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہلِ عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لیے یہ شانِ امتیاز قائم کی کہ مُزْدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر یہی امتیاز بنی خُز َاعہ اور بنی کِنَانہ اور اُن دُوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہو گیا ، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے، اُن کی شان بھی عام عربوں سے اُونچی ہو گئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اسی فخر و غرور کا بُت اس آیت میں توڑا گیا ہے ۔ آیت کا خطابِ خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطابِ عام اُن سب کی طرف ہے ، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصُوص کرنا چاہیں۔ اُن کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اَو رسب لوگ جہاں تک جاتے ہیں ، انھیں کے ساتھ جا ؤ ، اُنھیں کے ساتھ ٹھیرو، انھیں کے ساتھ پلٹو، اور اب تک جاہلیّت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ِ ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو، اس پر اللہ سے معافی مانگو۔
221- اہلِ عرب حج سے فارغ ہو کر مِنیٰ میں جلسے کرتے تھے ، جن میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے باپ دادا کے کارنامے فخر کے ساتھ بیان کرتے اور اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتے تھے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ان جاہلانہ باتوں کو چھوڑ و، پہلے جو وقت فضُولیات میں صَرف کرتے تھے اب اُسے اللہ کی یاد اور اس کے ذِکر میں صَرف کرو۔ اِس ذِکر سے مراد زمانہ ء قیامِ مِنیٰ کا ذِکر ہے۔
222- یعنی ایّامِ تشریق میں منٰی سے مکّے کی طرف واپسی خواہ ۱۲ ذی الحجہ کو ہو یا تیرھویں تاریخ کو، دونوں صُورتوں میں کوئی حرج نہیں ۔ اصل اہمیّت اس کی نہیں کہ تم ٹھیرے کتنے دن، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ان میں خدا کے ساتھ تمہارے تعلق کا کیا حال رہا۔ خدا کا ذکر کرتے رہے یا میلوں ٹھیلوں میں لگے رہے۔
223- یعنی کہتا ہے: خدا شاہد ہے کہ میں محض طالب خیر ہوں، اپنی ذاتی غرض کے لیے نہیں ، بلکہ صرف حق اور صداقت کے لیے یا لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہا ہوں۔
224- ”اَلَدُّ الْخِصَام“ کے معنی ہیں”وہ دُشمن جو تمام دُشمنوں سے زیادہ ٹیڑھا ہو“۔ یعنی جو حق کی مخالفت میں ہر ممکن حربے سے کام لے۔ کسی جُھوٹ، کسی بے ایمانی، کسی غدر و بد عہدی اور کسی ٹیڑھی سے ٹیڑھی چال کو بھی استعمال کرنے میں تامّل نہ کرے۔
225- ”اِذَا تَوَلّٰی“کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیا ر کیا ہے اور دُوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ مزے مزے کی دل لبھانے والی باتیں بنا کر”جب وہ پلٹتا ہے“، تو عملاً یہ کرتُوت دکھاتا ہے۔
226- یعنی کسی استثنا کے بغیر اپنی پُوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آ ؤ ۔ تمہارے خیالات ، تمہارے نظریّات ، تمہارے عُلوم، تمہارے طور طریقے ، تمہارے معاملات ، اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابعِ اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حِصّوں میں تقسیم کر کے بعض حِصّوں میں اِسْلام کی پَیروی کرو اور بعض حصّوں کو اس کی پَیروی سے مستثنیٰ کرلو۔
227- یعنی وہ زبردست طاقت بھی رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے مجرموں کو سزا کس طرح دے۔
228- یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دُنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں ، کتابوں کی تنزیل میں ، حتّٰی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہےاور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اُس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکُن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جُھکادینے کی ساری قدر و قیمت اُسی وقت تک ہے، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشمِ سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تختِ جلال پر متمکّن ہے ، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے ، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اُس کے قبضہء قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بد تر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جراٴت نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مُہلت بس اُسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی، تو پھر نہ مُہلت ہے نہ آزمائش ، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔