Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 21-29

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۙ‏ ﴿2:21﴾ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّـكُمۡ​ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ اَنۡدَادًا وَّاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ‏ ﴿2:22﴾ وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏  ﴿2:23﴾ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ  ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿2:24﴾ وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ​ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ​ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ​ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿2:25﴾ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسۡتَحۡـىٖۤ اَنۡ يَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا ​بَعُوۡضَةً فَمَا فَوۡقَهَا ​ؕ فَاَمَّا ​الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فَيَعۡلَمُوۡنَ اَنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّهِمۡ​ۚ وَاَمَّا الَّذِيۡنَ ڪَفَرُوۡا فَيَقُوۡلُوۡنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهٖ ڪَثِيۡرًا وَّيَهۡدِىۡ بِهٖ كَثِيۡرًا ​ؕ وَمَا يُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِيۡنَۙ ‏ ﴿2:26﴾ الَّذِيۡنَ يَنۡقُضُوۡنَ عَهۡدَ اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِيۡثَاقِهٖ وَيَقۡطَعُوۡنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنۡ يُّوۡصَلَ وَيُفۡسِدُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ​ؕ اُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿2:27﴾ كَيۡفَ تَكۡفُرُوۡنَ بِاللّٰهِ وَڪُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡيَاکُمۡ​ۚ ثُمَّ يُمِيۡتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡكُمۡ ثُمَّ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿2:28﴾ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ لَـكُمۡ مَّا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا ثُمَّ اسۡتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰٮهُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ​ؕ وَهُوَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏  ﴿2:29﴾

21 - لوگو،21 بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالِق ہے، تمھارے بچنے کی توقع اِسی22 صورت سے ہو سکتی ہے۔ 22 - وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی ،اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مدِّمقابِل نہ ٹھراوٴ۔23 23 - اور اگر تمھیں اس امرمیں شک ہےکہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے ،یہ ہماری ہے یا نہیں،تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاوٴ،اپنے سارے ہم نواوٴں کو بُلالو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لےلو،اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھاوٴ۔24 24 - لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ،اور یقینًا کبھی نہیں کر سکتے ،تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر25 ،جومہیّاکی گئی ہےمنکرینِ حق کے لیے۔ 25 - اور اے پیغمبر،جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں،انہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں،جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ان باغوں کے پھل صورت میں دُنیا کے پھلوں سے مِلتے جُلتے ہونگے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائےگا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دُنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔26 ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی۔27 اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ 26 - ہاں ، اللہ اس سے ہر گز نہیں شرماتا کہ مچھّر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔28جو لوگ حق بات کو قبو ل کرنے والے ہیں،وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کرجان  لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے ربّ ہی کی طرف سے آیا ہے ،اور جو ماننے والے نہیں ہے ، وہ انہیں سُن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔29 اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کر تا ہے، جو فاسق ہیں30، 27 - اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد  توڑ دیتے ہیں،31اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہےاُسے کاٹتے ہیں،32اور زمین میں فساد بر پا کرتے ہیں ۔33حقیقت میں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔ 28 - تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویّہ کیسے اختیار کرتے ہو،حالانکہ تم بے جان تھے ،اُس نے تم کو زندگی عطا کی،پھر وہی تمھاری جان سَلب کرےگا ،پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرےگا،پھر اسی  کی طرف تمہیں پلٹ کر جاناہے۔ 29 - وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں،پھر اُوپر کی طرف توجّہ فرمائی اور سات آسمان34 استوار کیے ۔اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ 35 ؏۳


Notes

21- اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے ، مگر اس دعوت سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔ لہٰذا پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اُٹھا سکتے۔ اِس کے بعد اب تمام نوعِ انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے ، جس کی طرف بُلانے کے لیے قرآن آیا ہے۔

22- یعنی دُنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع۔

23- یعنی جب تم خود بھی اِس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے، دُوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دُوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل ٹھہرانے سے مُراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویّہ خدا کے سوا دوسروں کے ساتھ برتا جائے۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صِرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دُوسروں کو شریک ٹھہرانا وہ ” شرک“ ہے ، جسے روکنے کے لیے قرآن آیا ہے۔

24- اِس سے پہلے مکّے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اِس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھا ؤ ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اِعادہ کیا جارہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ یونس ؑ ، آیت ۳۸ و سُورہٴ ہُود ، آیت ۱۳ ۔ بنی اسرائیل ، آیت ۸۸۔ الطور، آیت ۳۳۔۳۴)

25- اِس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے، بلکہ تمہارے وہ بُت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبُود و مسجُود بنا رکھا ہے۔ اس وقت تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ خدائی میں یہ کتنا دخل رکھتے تھے۔

26- یعنی نِرالے اور اجنبی پَھل نہ ہوں گے، جِن سے وہ نا مانوس ہوں۔ شکل میں اُنہی پَھلوں سے ملتے جُلتے ہوں گے جن سے وہ دُنیا میں آشنا تھے۔ البتہ لذّت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے۔ اہل جنّت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا۔ مگر مزے میں دُنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی۔

27- عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں”جوڑے“۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی ”زوج “ ہے اور بیوی کے شوہر”زوج“۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دُنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے ، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دُوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد، تو وہاں وہ اِس بُرے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا۔

28- یہاں ایک اعتراض کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر توضیح مدّعا کے لیے مکڑی ، مکھّی، مچھّروغیرہ کی جو تمثیلیں دی گئی ہیں ، اُن پر مخالفین کو اعتراض تھا کہ یہ کیسا کلامِ الہٰی ہے ، جس میں ایسی حقیر چیزوں کی تمثیلیں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کا کلام ہوتا تو اس میں یہ فضولیات نہ ہوتیں۔

28- یہاں ایک اعتراض کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر توضیح مدّعا کے لیے مکڑی ، مکھّی، مچھّروغیرہ کی جو تمثیلیں دی گئی ہیں ، اُن پر مخالفین کو اعتراض تھا کہ یہ کیسا کلامِ الہٰی ہے ، جس میں ایسی حقیر چیزوں کی تمثیلیں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کا کلام ہوتا تو اس میں یہ فضولیات نہ ہوتیں۔

29- یعنی جو لوگ بات کو سمجھنا نہیں چاہتے، حقیقت کی جستجو ہی نہیں رکھتے، اُن کی نگاہیں تو بس ظاہری الفاظ میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اور وہ ان چیزوں سے اُلٹے نتائج نکال کر حق سے اَور زیادہ دُور چلے جاتے ہیں۔ بر عکس اس کے جو خود حقیقت کے طالب ہیں اور صحیح بصیرت رکھتے ہیں، ان کو اُنہی باتوں میں حکمت کے جوہر نظر آتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ ایسی حکیمانہ باتیں اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہیں۔

30- فاسق: نافرمان، اطاعت کی حد سے نِکل جانے والا۔

31- بادشاہ اپنے ملازموں اور رعایا کے نام جو فرمان یا ہدایت جاری کرتا ہے ، ان کو عربی محاورے میں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کی تعمیل رعایا پر واجب ہوتی ہے۔ یہاں عہد کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے ، جس کی رُو سے تمام نوعِ انسانی صرف اسی کی بندگی ، اطاعت اور پرستش کرنے پر مامور ہے۔ ”مضبُوط باندھ لینے کے بعد“ سے اشارہ اس طرف ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت تمام نوعِ انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا اقرار لے لیا گیا تھا۔ سُورہ ء اعراف ، آیت ۱۷۲ میں اس عہد و اقرار پر نسبتًہ زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

32- یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے ، اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدّن و اخلاق کی پوری دُنیا پر ، جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلّقات تک پھیلی ہوئی ہے ، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہو جاتا ہے ۔ روابط کو کاٹنے سے مُراد محض تعلّقاتِ انسانی کا اِنقطاع ہی نہیں ہے، بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صُورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی، وہ سب اسی ذیل میں آجائیں گی، کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے ، جو قطعِ روابط کا ہے ، یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظامِ اخلاق و تمدّن کی بردباری۔

33- ان تین جُملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کر دی گئی ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق اور انسان اور انسان کے تعلق کو کاٹنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ فساد ہے، اور جو اس فساد کو برپا کرتا ہے، وہی فاسق ہے۔

34- سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے ، اس کا تعیّن مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان، یا با لفاظِ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصوّرات قائم کرتا رہا ہے ، جو برابر بدلتے رہے ہیں۔ لہٰذا اُن میں سے کسی تصوّر کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہُوم متعین کرنا صحیح نہ ہوگا۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے ، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔

35- اس فقرے میں دو اہم حقیقتوں پر مُتنبّہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ تم اس خدا کے مقابلے میں کفر و بغاوت کا رویّہ اختیار کرنے کی جُراٴت کیسے کرتے ہو جو تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے، جس سے تمہاری کوئی حرکت چھپی نہیں رہ سکتی۔ دوسرے یہ کہ جو خدا تمام حقائق کا عِلم رکھتا ہے، جو درحقیقت علم کا سرچشمہ ہے، اس سے منہ موڑ کر بجز اس کے کہ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکو اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ جب اس کے سوا علم کا اور کوئی منبع ہی نہیں ہے ، جب اس کے سوا اور کہیں سے وہ روشنی نہیں مل سکتی جس میں تم اپنی زندگی کا راستہ صاف دیکھ سکو، تو آخر اُس سے رُوگردانی کرنے میں کیا فائدہ تم نے دیکھا ہے؟