229- اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجُوہ سے کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بے زبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامانِ عبرت و بصیرت ہے۔ دُوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے، جس کو کتاب اور نبوّت کی مشعل دے کر دُنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا، اور پھر اس نے دُنیا پرستی، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مُبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محرُوم کر لیا۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے، اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مِل سکتا ہے ، تو وہ یہی قوم ہے۔
230- ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بُنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دُنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اُس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہےاور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدّت تک نسلِ آدم راہِ راست پر قائم رہی اور ایک اُمّت بنی رہی۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دُوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خرابی کو دُور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا ئے کرام کو مبعوث کرنا شرُوع کیا۔ یہ انبیا ؑ اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی اُمّت بنا لے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہِ حق کو واضح کر کے اُنھیں پھر سے ایک اُمّت بنا دیں۔
231- اُوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پُوری داستان کی داستان ہے، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سُورتوں میں ( جو سُورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے۔ انبیا ؑ جب کبھی دُنیا میں آئے، انھیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جو کھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دینِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اس دین کا راستہ کبھی پھُولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس ”اٰ مَنَّا“ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوّتیں صرف کر دے۔