Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 211-216

سَلۡ بَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ كَمۡ اٰتَيۡنٰهُمۡ مِّنۡ اٰيَةٍۢ بَيِّنَةٍ ​ؕ وَمَنۡ يُّبَدِّلۡ نِعۡمَةَ اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿2:211﴾ زُيِّنَ لِلَّذِيۡنَ كَفَرُوا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَيَسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ​ ۘ وَالَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿2:212﴾ كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً  فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ وَاَنۡزَلَ مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ النَّاسِ فِيۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ ​ؕ وَمَا اخۡتَلَفَ فِيۡهِ اِلَّا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡهُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ بَغۡيًا ۢ بَيۡنَهُمۡ​ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ مِنَ الۡحَـقِّ بِاِذۡنِهٖ​ ؕ وَاللّٰهُ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿2:213﴾ اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰى يَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ مَتٰى نَصۡرُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ‏ ﴿2:214﴾ يَسۡـئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ​ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:215﴾ كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الۡقِتَالُ وَهُوَ كُرۡهٌ لَّـكُمۡ​ۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡ​ۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تُحِبُّوۡا شَيۡـئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:216﴾

211 - بنی اسرئیل سے پوچھو: کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے انھیں دکھائی ہیں(اور پھر یہ بھی انہیں سے پوچھ لو کہ ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اسے اللہ کیسی سخت سزا دیتا ہے۔229 212 - جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، ان کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنادی گئی ہے۔ ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی ان کے مقابلے میں  عالی مقام ہوں گے۔ رَہا دنیا کا رزق ، تو اللہ کو اختیار ہے ، جسے چاہے بے حساب دے۔ 213 - ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج ر وی کے نتائج سےڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ کتاب ِبر حق نازل کی تا کہ  حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے،  ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رونما ہونے  کی وجہ  یہ نہ تھی کہ ابتداء میں لوگوں کو حق  بتایا  نہیں گیا تھا۔ نہیں،) اختلاف  ان لوگوں  نے کیا ، جنہیں حق کا علم دیا  چکاتھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالےکہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے230۔۔۔۔ پس جو لوگ انبیاؑ پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس  حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔  اللہ جسے چاہتا ہے ، راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ 214 - پھر کیا231 تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوُ نہی  جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر  سختیاں گزر یں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتٰی کہ وقت کا رسول اور اس کےساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔۔۔۔ اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ 215 - لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر ، رشتے داروں پر، یتیموں او ر مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی  بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہو گا۔ 216 - تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔؏۲۶


Notes

229- اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجُوہ سے کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بے زبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامانِ عبرت و بصیرت ہے۔ دُوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے، جس کو کتاب اور نبوّت کی مشعل دے کر دُنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا، اور پھر اس نے دُنیا پرستی، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مُبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محرُوم کر لیا۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے، اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مِل سکتا ہے ، تو وہ یہی قوم ہے۔

230- ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بُنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دُنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اُس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہےاور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدّت تک نسلِ آدم راہِ راست پر قائم رہی اور ایک اُمّت بنی رہی۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دُوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خرابی کو دُور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا ئے کرام کو مبعوث کرنا شرُوع کیا۔ یہ انبیا ؑ اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی اُمّت بنا لے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہِ حق کو واضح کر کے اُنھیں پھر سے ایک اُمّت بنا دیں۔

231- اُوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پُوری داستان کی داستان ہے، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سُورتوں میں ( جو سُورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے۔ انبیا ؑ جب کبھی دُنیا میں آئے، انھیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جو کھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دینِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اس دین کا راستہ کبھی پھُولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس ”اٰ مَنَّا“ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوّتیں صرف کر دے۔