Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 222-228

وَ يَسۡـئَلُوۡنَكَ عَنِ الۡمَحِيۡضِ​ۙ قُلۡ هُوَ اَذًى فَاعۡتَزِلُوۡا النِّسَآءَ فِى الۡمَحِيۡضِ​ۙ وَلَا تَقۡرَبُوۡهُنَّ حَتّٰى يَطۡهُرۡنَ​​ۚ فَاِذَا تَطَهَّرۡنَ فَاۡتُوۡهُنَّ مِنۡ حَيۡثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيۡنَ وَيُحِبُّ الۡمُتَطَهِّرِيۡنَ‏ ﴿2:222﴾ نِسَآؤُكُمۡ حَرۡثٌ لَّـكُمۡ فَاۡتُوۡا حَرۡثَكُمۡ اَنّٰى شِئۡتُمۡ​  وَقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡ​ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّکُمۡ مُّلٰقُوۡهُ ​ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2:223﴾ وَلَا تَجۡعَلُوا اللّٰهَ عُرۡضَةً لِّاَيۡمَانِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡا وَتَتَّقُوۡا وَتُصۡلِحُوۡا بَيۡنَ النَّاسِ​ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:224﴾ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡٓ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا كَسَبَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿2:225﴾ لِّـلَّذِيۡنَ يُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِهِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَةِ اَشۡهُرٍ​​ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿2:226﴾ وَاِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:227﴾ وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ​ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ​ؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ​ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ​ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏  ﴿2:228﴾

222 - پوچھتے  ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔238 اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب  تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں239۔پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔240 اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار  کریں۔ 223 - تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ241، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو242 اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ ! جو تمہاری ہدایت کو مان لیں انہیں فلاح وسعادت کا مژدہ سنادو۔ 224 - اللہ کے نام کو  ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو، جن سے مقصود  نیکی اور تقوٰی  اور بندگان خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو۔243 اللہ تمہاری باتین سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ 225 - جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا،244مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔ 226 - جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے245۔  اگر انھوں نے رجوع کرلیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔246 227 - اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی  ٹھان لی 247ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔248 228 - جن عورتوں کو طلاق دی گئی  ہو ، وہ تین مرتبہ ایّام ِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم  میں جو کچھ  خَلق فرمایا ہو، اسے چھپائیں۔ انھیں ہرگز  ایسا نہ کرنا چاہیے، اگر وہ اللہ اور روزِ آخر  پر ایمان رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر  تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اس عدّت کے دوران میں انھیں پھر اپنی زوجیّت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔249 عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مَردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم ودانا موجود ہے۔؏۲۸


Notes

238- اصل میں اَذ یٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی گندگی کے بھی ہیں اور بیماری کے بھی۔ حیض صرف ایک گندگی ہی نہیں ہے ، بلکہ طبی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے ، جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔

239- قرآن مجید اس قسم کے معاملات کو استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے ۔ اس لیے اس نے ”الگ رہو“ اور ”قریب نہ جا ؤ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ ایک فرش پر بیٹھنے یا ایک جگہ کھانا کھانے سے بھی احتراز کیا جائے اور اسے بالکل اچھُوت بنا کر رکھ دیا جائے، جیسا کہ یہُود اور ہنُود اور بعض دُوسری قوموں کا دستور ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی جو توضیح فرما دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں صرف فعلِ مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے، باقی تمام تعلقات بدستور برقرار رکھے جائیں۔

240- یہاں حکم سے مراد حکم ِ شرعی نہیں ہے، بلکہ وہ فطری حکم مراد ہے، جو انسان اور حیوان ، سب کی جبلّت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہے۔

241- یعنی فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مَردوں کے لیے سیر گاہ نہیں بنایا ہے، بلکہ ان دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان محض تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے۔ نسلِ انسانی کے کسان کو بھی انسانیت کی کھیتی میں اس لیے جانا چاہیے کہ وہ اس سے نسل کی پیداوار حاصل کرے۔ خدا کی شریعت کو اِس سے بحث نہیں کہ تم اس کھیت میں کاشت کس طرح کرتے ہو، البتہ اس کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جا ؤ کھیت ہی میں، اور اس غرض کے لیے جا ؤ کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔

242- جامع الفاظ ہیں، جن سے دو مطلب نکلتے ہیں اور دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔ ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو تاکہ تمہارے دُنیا چھوڑنے سے پہلے تمہاری جگہ دُوسرے کام کرنے والے پیدا ہوں۔ دُوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیّت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ بعد کے فقرے میں اس بات پر بھی تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے باز پرس کرے گا۔

243- احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بات کی قَسم کھائی ہو اور بعد میں اس پر واضح ہو جائے کہ اِس قَسم کے توڑ دینے ہی میں خیر اور بھلائی ہے، اسے قَسم توڑ دینی چاہیے اور کفّارہ ادا کرنا چاہیے۔ قَسم توڑنے کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے۔( ملاحظہ ہو سُورہ مائدہ ، آیت ۸۹)

244- یعنی بطور تکیہ کلام کے بلا ارادہ جو قسمیں زبان سے نکل جاتی ہیں، ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے اور نہ ان پر مواخذہ ہو گا۔

245- اِصطلاحِ شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کےساتھ قانونی طور پر رشتہ ء ازدواج میں تو بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دُوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے کی مدّت مقرر کر دی کہ یا تو اس دَوران میں اپنے تعلقات درست کر لو، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دُوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں، اس کے ساتھ نکاح کر لیں۔ آیت میں چونکہ”قَسم کھالینے“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قَسم کھائی ہو، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہوگا، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدّت کے لیے ہو، اس آیت کا حکم اُس صُورت پر چسپاں نہ ہوگا۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قَسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئے ہو، دونوں صُورتوں میں ترکِ تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مُدّت ہے۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔( بدایۃ المجتہد، جلد دوم ، ص ۸۸ ، طبع مصر، سن ۱۳۳۹ ھ)

حضرت علی ؓ اور ابنِ عباس ؓ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اُس ترکِ تعلق کے لیے ہے ، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا۔ لیکن دُوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ ء جسمانی کو منقطع کر دے، ایلاء ہے اور اسے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے۔

246- بعض فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اگر وہ اس مدّت کے اندر اپنی قسم توڑ دیں اور پھر سے تعلقِ زن و شو قائم کر لیں توان پر قسم توڑنے کا کفّارہ نہیں ہے، اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا۔ لیکن اکثر فقہا کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا۔ غفورٌ رحیم کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ سے تمہیں معاف کر دیا گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے کفارے کو قبول کر لے گا اور ترکِ تعلق کے دَوران میں جو زیادتی دونوں نے ایک دُوسرے پر کی ہو، اسے معاف کر دیا جائے گا۔

247- حضرات عثمان، ابن مسعود، زید بن ثابت وغیرہم کے نزدیک رُجوع کا موقع چار مہینے کے اندر ہی ہے۔ اس مدّت کا گزر جانا خود اِس بات کی دلیل ہے کہ شوہر نے طلاق کا عزم کر لیا ہے، اس لیے مدّت گزرتے ہی طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی اور وہ ایک طلاق ِ بائن ہوگی، یعنی دَورانِ عدّت میں شوہر کو رُجوع کا حق نہ ہوگا۔ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں ، تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ حضرات عمر ، علی، ابنِ عباس اور ابنِ عمر سے بھی ایک قول اسی معنی میں منقول ہے اور فقہائے حنفیہ نے اسی رائے کو قبول کیا ہے۔ سعید بن مُسَیِّب ، مکحُول، زُہری وغیرہ حضرات اس رائے سے یہاں تک تو متفق ہیں کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی، مگر اُن کے نزدیک وہ ایک طلاق رجعی ہوگی، یعنی دَورانِ عِدّت میں شوہر کو رجوع کر لینے کا حق ہوگا اور رجوع نہ کرے تو عدّت گزر جانے کے بعد دونوں اگر چاہیں ، تو نکاح کر سکیں گے۔

بخلاف اس کے حضرت عائشہ ؓ ، ابو الدَّرْدَاء اور اکثر فقہائے مدینہ کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہوگا اور حاکمِ عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رُجوع کرے یا اُسے طلاق دے۔ حضر عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور ابنِ عمر ؓ کا ایک قول اس کی تائید میں بھی ہے اور امام مالک و شافعی نے اسی کو قبول کیا ہے۔

248- یعنی اگر تم نے بیوی کو ناروا بات پر چھوڑ ا ہے، تو اللہ سے بےخوف نہ رہو، وہ تمہاری زیادتی سے ناواقف نہیں ہے۔

249- اس آیت کے حکم میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک جماعت کے نزدیک جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر نہا نہ لے، اس وقت تک طلاق بائن نہ ہوگی اور شوہر کو رُجوع کا حق باقی رہے گا۔ حضرات ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، علی ؓ ، ابنِ عباس ؓ ، ابو موسیٰ اشعری، ابنِ مسعود اور بڑے بڑے صحابہ ؓ کی یہی رائے ہے اور فقہائے حنفیہ نے اِسی کو قبول کیا ہے۔ بخلاف اِس کے دُوسری جماعت کہتی ہے کہ عورت کو تیسری بار حیض آتے ہی شوہر کا حقِ رجوع ساقط ہو جاتا ہے۔ یہ رائے حضرات عائشہ ؓ ، ابنِ عمر ؓ ، اور زید بن ثابت ؓ کی ہے اور فقہائے شافعیہ و مالکیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مگر واضح رہے کہ یہ حکم صرف اس صُورت سے متعلق ہے، جس میں شوہر نے عورت کو ایک یاد و طلاقیں دی ہوں۔ تین طلاقیں دینے کی صُورت میں شوہر کو حقِ رُجوع نہیں ہے۔