Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 232-235

وَاِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡهُنَّ اَنۡ يَّنۡكِحۡنَ اَزۡوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوۡا بَيۡنَهُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ؕ ذٰ لِكَ يُوۡعَظُ بِهٖ مَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ ذٰ لِكُمۡ اَزۡکٰى لَـكُمۡ وَاَطۡهَرُؕ​ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿2:232﴾ وَالۡوَالِدٰتُ يُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ​ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ​ ؕ وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌ ۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوۡلُوۡدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ وَعَلَى الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰ لِكَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا ​ؕ وَاِنۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡٓا اَوۡلَادَكُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّآ اٰتَيۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿2:233﴾ وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡكُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا يَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّعَشۡرًا ​​ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿2:234﴾ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِهٖ مِنۡ خِطۡبَةِ النِّسَآءِ اَوۡ اَکۡنَنۡتُمۡ فِىۡٓ اَنۡفُسِكُمۡ​ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمۡ سَتَذۡكُرُوۡنَهُنَّ وَلٰـكِنۡ لَّا تُوَاعِدُوۡهُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ​ؕ وَلَا تَعۡزِمُوۡا عُقۡدَةَ النِّکَاحِ حَتّٰى يَبۡلُغَ الۡكِتٰبُ اَجَلَهٗ ​ؕ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا فِىۡٓ اَنۡفُسِكُمۡ فَاحۡذَرُوۡهُ ​ؕ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿2:235﴾

232 - جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ عدّت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے با ہم مناکحت پر راضی ہوں۔ 256تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ 233 - جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدّت رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچّوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔257 اس صورت میں بچّے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہو گا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر با ر نہ ڈالنا چاہیے، نہ تو ماں کو اس  وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچّہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچّہ اس کا ہے۔ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچّے کے باپ پر ہے، ویسا ہی اس کے وارث پربھی ہے258۔ لیکن اگر فریقین  باہمی رضا مندی  اور  مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر  عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کردو۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ 234 - تم میں سے جو لوگ مر جائیں ، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے ، دس دن روکے رکھیں۔ 259پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے، تو انہیں اختیار ہے، اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں، کریں ۔ تم پر اس کی کوئی ذمّے داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ 235 - زمانہٴ عدّت  میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کےساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنا یے میں ظاہر کردو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمہارےدل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو! خفیہ عہد وپیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے، تومعروف طریقے سے کرو۔ اور عقدِ نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ  کرو، جب تک کہ عدّت پوری نہ ہو جائے، خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ لہٰذا  اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بُرد بار ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر فرماتا ہے۔؏۳۰


Notes

256- یعنی اگر کسی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہو اور زمانہء عِدّت کے اندر اس سے رجُوع نہ کیا ہو، پھر عدّت گزر جانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح پر راضی ہوں ، تو عورت کے رشتے داروں کو اس میں مانع نہ ہونا چاہیے۔ نیز اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہو اور عورت عدّت کے بعد اس سے آزاد ہو کر کہیں دُوسری جگہ اپنا نکاح کرنا چاہتی ہو تو اُس سابق شوہر کو ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے کہ اس کے نکاح میں مانع ہو اور یہ کوشش کرتا پھرے کہ جس عورت کو اس نے چھوڑا ہے، اُسے کوئی نکاح میں لانا قبول نہ کرے۔

257- یہ اُس صُورت کا حکم ہے ، جبکہ زوجین ایک دُوسرے سے علیٰحدہ ہو چکے ہوں، خواہ طلاق کے ذریعے یا خُلع یا فسخ اور تفریق کے ذریعے سے ، اور عورت کی گود میں دُودھ پیتا بچّہ ہو۔

258- یعنی اگر باپ مر جائے ، تو جو اس کی جگہ بچہ کا ولی ہو ، اُسے یہ حق ادا کرنا ہوگا۔

259- “یہ عِدّتِ وفات اُن عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس کی عِدّت ِ وفات وضعِ حمل تک ہے، خواہ حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یا اِس میں کئی مہینے صرف ہوں۔

”اپنے آپ کو روکے رکھیں“ سے مُراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مُدّت میں نکاح نہ کریں، بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے۔ چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانہء عدّت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہننے سے، مہندی اور سُرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے، اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتّہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا اس زمانے میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے یا نہیں۔ حضرات عمر ؓ ، عثمان ؓ ، ابنِ عمر ؓ ، زید بن ثابت ؓ ، ابنِ مسعود، اُم سَلَمہ، سعید بن مُسَیِّب، ابراہیم نَخعی، محمد بن سیرین اور ائمہ ء اربعہ رحمہمُ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانہء عِدّت میں عورت کو اُسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو۔ دن کے وقت کسی ضرورت سے وہ باہر جاسکتی ہے ، مگر قیام اس کا اُسی گھر میں ہونا چاہیے۔ اِس کے برعکس حضرت عائشہ ؓ ، ابنِ عبّاس ؓ ، حضرت علی ؓ ، جابر بن عبداللہ ، عطاء، طا ؤ س، حسن بصری ، عمر بن عبدالعزیز ؓ اور تمام اہلِ الظاہر ا س بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدّت کا زمانہ جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے۔