Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 236-242

لَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡهُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَهُنَّ فَرِيۡضَةً  ۖۚ وَّمَتِّعُوۡهُنَّ ​ۚ عَلَى الۡمُوۡسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الۡمُقۡتِرِ قَدَرُهٗ ​ۚ مَتَاعًا ۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​​ۚ حَقًّا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏  ﴿2:236﴾ وَاِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡهُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡهُنَّ وَقَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَهُنَّ فَرِيۡضَةً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يَّعۡفُوۡنَ اَوۡ يَعۡفُوَا الَّذِىۡ بِيَدِهٖ عُقۡدَةُ النِّكَاحِ ​ؕ وَاَنۡ تَعۡفُوۡٓا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى​ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَيۡنَكُمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏  ﴿2:237﴾ حَافِظُوۡا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الۡوُسۡطٰى وَقُوۡمُوۡا لِلّٰهِ قٰنِتِيۡنَ‏ ﴿2:238﴾ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُكۡبَانًا ​​ ۚ فَاِذَآ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰهَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ مَّا لَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:239﴾ وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا  ۖۚ وَّصِيَّةً لِّاَزۡوَاجِهِمۡ مَّتَاعًا اِلَى الۡحَـوۡلِ غَيۡرَ اِخۡرَاجٍ​​ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡکُمۡ فِىۡ مَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَکِيۡمٌ‏ ﴿2:240﴾ وَلِلۡمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ ۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ​ؕ حَقًّا عَلَى الۡمُتَّقِيۡنَ‏  ﴿2:241﴾ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـکُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿2:242﴾

236 - تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں انھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔260 خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ 237 - اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو ، لیکن مہرمقرر کیا جاچکا ہو، جس کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے( اور پورا مہر دیدے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقوٰی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیّاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہاہے۔261 238 - اپنی نمازوں کی نگہداشت262 رکھو، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسِن صلوٰة کی جامع ہو۔263 اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو، جیسے فرماں بردار غلام کھڑے ہوتےہیں۔ 239 - بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو، خواہ سوار، جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑھو۔ اور جب امن میسّر آجائے، تو اللہ کو اس  طریقے سے یاد کرو، جو اس نے تمہیں سکھادیا ہے، جس سے تم  پہلے ناواقف تھے۔ 240 - تم میں264 سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑرہےہوں، ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیّت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔پھر اگر وہ خود نکل جائیں، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں، اس کی کوئی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ 241 - اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ 242 - اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔؏۳١


Notes

260- اس طرح رشتہ جوڑنے کے بعد توڑ دینے سے بہرحال عورت کو کچھ نہ کچھ نقصان تو پہنچتا ہی ہے، اس لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ حسبِ مقدرت اس کی تلافی کرو۔

261- یعنی انسانی تعلقات کی بہتری و خوشگواری کے لیے لوگوں کا باہم فیّا ضانہ برتا ؤ کرنا ضروری ہے۔ اگر ہر ایک شخص ٹھیک ٹھیک اپنے قانونی حق ہی پر اَڑا رہے ، تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔

262- قوانینِ تمدّن و معاشرت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس تقریر کو نماز کی تاکید پر ختم فرماتا ہے ، کیونکہ نماز ہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر خدا کا خوف ، نیکی و پاکیزگی کے جذبات اور احکامِ الہٰی کی اطاعت کا مادہ پیدا کرتی ہے اور اُسے راستی پر قائم رکھتی ہے۔ یہ چیز نہ ہو تو انسان کبھی الہٰی قوانین کی پابندی پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا اور آخر کار اسی نافرمانی کی رَو میں بہہ نکلتا ہے جس پر یہُودی بہہ نکلے۔

263- “اصل میں لفظ” صَلوٰۃ الْوُسْطیٰ“استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد بعض مفسّرین نے صبح کی نماز لی ہے، بعض نے ظہر، بعض نے مغرب اور بعض نے عشا۔ لیکن ان میں سے کوئی قول بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ صرف اہلِ تاویل کا استنباط ہے۔ سب سے زیادہ اقوال نمازِ عصر کے حق میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن جس واقعہ سے یہ نتیجہ نکا لا جاتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جنگِ احزاب کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے حملے نے اس درجہ مشغول رکھا کہ سُورج ڈوبنے کو آگیا اور آپؐ نمازِ عصر نہ پڑھ سکے۔ اُس وقت آپؐ نے فرمایاکہ”خدا ان لوگوں کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے، انہوں نے ہماری صلوٰۃ وسطیٰ فوت کرا دی۔“ اِس سے یہ سمجھا گیا کہ آپ ؐ نے نمازِ عصر کو صلوٰۃِ وسطیٰ فرمایا ہے، حالانکہ اس کا یہ مطلب ہمارے نزدیک زیادہ قرینِ صواب ہے کہ اس مشغولیت نے اعلیٰ درجے کی نماز ہم سے فوت کرادی، ناوقت پڑھنی پڑے گی، جلدی جلدی ادا کرنی ہوگی، خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون کے ساتھ نہ پڑھ سکیں گے۔

وسطیٰ کے معنی بیچ والی چیز کے بھی ہیں اور ایسی چیز کے بھی جو اعلیٰ اور اشرف ہو۔ صلوٰۃِ وسطیٰ سے مراد بیچ کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور ایسی نماز بھی جو صحیح وقت پر پُورے خشوع اور توجّہ اِلی اللہ کے ساتھ پڑھی جائے، اور جس میں نماز کی تمام خوبیاں موجود ہوں۔ بعد کا فقرہ کہ”اللہ کے آگے فرمانبردار بندوں کی طرح کھڑے ہو“، خود اس کی تفسیر کر رہا ہے۔

264- سلسلہ ء تقریر اُوپر ختم ہو چکا تھا، یہ کلام اس کے تتمے اور ضمیمے کے طور پر ہے۔