Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 243-248

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَهُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوۡتُوۡا ثُمَّ اَحۡيَاھُمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰـكِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا يَشۡکُرُوۡنَ‏ ﴿2:243﴾ وَقَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏  ﴿2:244﴾ مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً  ​ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿2:245﴾ اَلَمۡ تَرَ اِلَى الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰى​ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ؕ قَالَ هَلۡ عَسَيۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَيۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِيَارِنَا وَاَبۡنَآئِنَا ​ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِيۡلًا مِّنۡهُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿2:246﴾ وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اللّٰهَ قَدۡ بَعَثَ لَـکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِكًا ​ؕ قَالُوۡٓا اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهُ الۡمُلۡكُ عَلَيۡنَا وَنَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡكِ مِنۡهُ وَلَمۡ يُؤۡتَ سَعَةً مِّنَ الۡمَالِ​ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮهُ عَلَيۡکُمۡ وَزَادَهٗ بَسۡطَةً فِى الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ​ؕ وَاللّٰهُ يُؤۡتِىۡ مُلۡکَهٗ مَنۡ يَّشَآءُ ​ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:247﴾ وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اٰيَةَ مُلۡکِهٖۤ اَنۡ يَّاۡتِيَکُمُ التَّابُوۡتُ فِيۡهِ سَکِيۡنَةٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوۡسٰى وَاٰلُ هٰرُوۡنَ تَحۡمِلُهُ الۡمَلٰٓـئِكَةُ​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2:248﴾

243 - 265تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑکر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ  نے ان سے فرمایا: مر جاؤ۔  پھر اس نےا ن کو دوبارہ زندگی بخشی۔266   حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ 244 - مسلمانو! اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور خوب جان رکھو کہ  اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ 245 - تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض ِ حَسَن دے267 تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر  واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھا نا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ 246 - پھر تم نے اس معاملے پر بھی غور کیا، جو موسیٰ ؑ   کے بعد سردار ان بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا؟  انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے  لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔268 نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ تم کو لڑائی کا  حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو۔ وہ کہنےلگے: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راہ ِ خدا میں نہ لڑیں، جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیاگیا اور ہمارے بال بچے ہم سے جُدا کر دیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا ، تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے، اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا  ہے۔ 247 - ان کے نبی نے ان سے کہا  کہ اللہ نے طالوت269 کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر  وہ بولے: ”ہم پر بادشاہ بننےکا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں ۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے“۔ نبی نے جواب دیا:”اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو  اختیار ہے کہ  اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے او ر سب کچھ اس کےعلم میں ہے۔“ 248 - اس کے ساتھ ان کے نبی  نے ان کو یہ بھی بتایا کہ”خدا کی طرف سے اس کے  بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا، جس میں آلِ موسیٰ  ؑ اور آلِ ہارونؑ  کے چھوڑے ہوئے تبّرکات ہیں، اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں۔270 اگر تم مومن ہو، تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔؏۳۲


Notes

265- یہاں سے ایک دُوسرا سلسلہ ء تقریر شروع ہوتا ہے، جس میں مسلمانوں کو راہِ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر اُبھارا گیا ہے اور انھیں اُن کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ،جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکّے سے نکالے جا چکے تھے، سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے، اور کفّار کے مظالم سے تنگ آکر خود بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے۔ مگر جب اُنھیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا ، تو اب ان میں بعض لوگ کَسمَسا رہے تھے، جیسا کہ چھبّیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ اِس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے اُنھیں عبرت دلائی گئی ہے۔

266- یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ ء خروج کی طرف ہے۔ سُورہ مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے۔ دشت و بیاباں میں بے خانماں پھر رہے تھے۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بے تاب تھے۔ مگر جب اللہ کے ایما سے حضرت موسیٰ ؑ نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کَنعانیوں کو ارضِ فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کر لو، تو انہوں نے بُزدلی دِکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ آخر کا ر اللہ نے انھیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہو گئی اور دُوسری نسل صحرا ؤ ں کی گود میں پل کر اُٹھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُنھیں کنعانیوں پر غلبہ عطا کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

267- ”قرضِ حسن“ کا لفظی ترجمہ”اچھا قرض“ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے۔ اس طرح جو مال راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، اُسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمّے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا ، بلکہ اس سے کئی گُنا زیادہ دُوں گا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرضِ حَسَن ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ محض اللہ کی خاطر اُن کا موں میں صرف کیا جائے ، جن کو وہ پسند کر تا ہے۔

268- یہ تقریباً ایک ہزار برس قبلِ مسیح کا واقعہ ہے۔ اُس وقت بنی اسرائیل پر عَمالِقہ چیرہ دست ہوگئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے، مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس لیے سردارانِ بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسُوس کی کہ کوئی اور شخص اُن کا سربراہ کا ر ہو، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں۔ لیکن اُس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیّت آچکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثّر ہوچکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق اُن کے ذہنوں سے نکل گیا تھا۔ اس لیے اُنھوں نے درخواست جو کی، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اوّل میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، وہ حسبِ ذیل ہیں: ”سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا ۔۔۔۔۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ، تُو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے۔ اب تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے، جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے۔۔۔۔۔ یہ بات سموئیل کو بُری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دُعا کی اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تُو اس کو مان کیونکہ انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔۔۔۔۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے، خداوند کی سب باتیں کہہ سُنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دَوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اوررتھوں کے ساز بنوائیگا اورتمہاری بیٹیوں کو گُندھن اور باورچن اور نان پُز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصّہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصّہ لے گا۔ سو تم اس کے غلام بن جا ؤ گے اور تم اُس دن اس بادشاہ کے سبب سے، جسے تم نے اپنے لیے چُنا ہوگا فریاد کرو گے، پر اس دن خدا وند تم کو جواب نہ دے گا۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سُنی اور کہنے لگے نہیں، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں، جو ہمارے اُوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔۔۔۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا، تُو اُن کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر ۔“ (باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲) ”پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا ، تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے ، حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا۔ سو اب اِس بادشاہ کو دیکھو ، جسے تم نے چُن لیا او رجس کے لیے تم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو خدا وند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خدا وند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی ، جو تم پر سلطنت کرتا ہے، خدا وند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو، تو خیر ، پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو، تو خدا وند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا، جیسے وہ تمہارے باپ داد ا کے خلاف ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ اور تم جان لوگے اور دیکھ بھی لوگے کہ تم نے خداوند کے حضُور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی ۔۔۔۔۔ اب رہا میں ، سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دُعا کرنے سے باز آکر خداوند کا گنہگار ٹھیروں، بلکہ میں وہی راہ ، جو اچھی اور سیدھی ہے، تم کو بتا ؤ ں گا۔“(باب ۱۲ ۔ آیت ۱۲ تا ۲۳)

کتاب سموئیل کی اِن تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اُس کے نبی کو پسند نہ تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اِس مقام پر سردارانِ بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصّے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ اُن کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا۔ یہاں تو یہ بتانا مقصُود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بُزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آگئی تھی اور ان کے اند ر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی ، جس کے سبب سے آخر کار وہ گِر گئے۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں۔

269- بائیبل میں اس کا نام سا ؤ ل لکھا ہے ۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا ۔ ”بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔“ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا ، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل کی بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے، تیل کی کُپی لے کر اُس کے سر پر اُنڈیلی اور اُسے چُوما اور کہا کہ ” خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تُو اُس کی میراث کا پیشوا ہو ۔“ اس کے بعد اُنہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماعِ عام کر کے اُس کی بادشاہی کا اعلان کیا (۱-سموئیل، باب ۹ و ۱۰)

یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ”مسح“ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا ۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن(Chief Priest ) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے ، اس کے بعد تیسرے ممسُوح یا مسیح حضرت دا ؤد ؑ ہوئے ، اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰ ؑ ۔ لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوّت کے منصب پر بھی سرفراز ہو اتھا۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اُسے نبی تسلیم کیا جائے۔

270- بائیبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے ۔ تاہم اس سے اصل واقعہ کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق ، جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ” عہد کا صندوق“ کہتے تھے ، ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا ، وہاں وبائیں پھُوٹ پڑیں۔ آخر کار اُنہوں نے خوف کے مارے اُسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا ۔ غالباً اِسی معاملے کی طرف قرآن اِن الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اُس وقت وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا، کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اُسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”اِس صندوق میں تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے“، تو بائیبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔ جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ، تو پُوری قوم کی ہمّت ٹُوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھِر گئی ہے اور اب ہمارے بُرے دن آگئے ہیں۔ پس اُس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے لئے بڑی تقویت ِ قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ایسا ذریعہ تھا ، جس سے اُن کی ٹُوٹی ہوئی ہمّتیں پھر بندھ سکتی تھیں۔

”آلِ موسی ٰ ؑ اور آلِ ہارون ؑ کے چھوڑے ہوئے تبرّکات “ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ، ان سے مُراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں ، جو طُورِ سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو دی تھیں۔ اس کےعلاوہ تورات کا وہ اصل نسخہ بھی اُس میں تھا، جسے حضرت موسیٰ ؑ نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا ۔ نیز ایک بوتل میں مَن بھی بھر کر اُس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کے اُس احسان کو یاد کریں، جو صحرا میں اُس نے اُن کے باپ دادا پر کیا تھا۔ اور غالباً حضرت موسیٰ ؑ کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا، جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر بنا تھا۔