271- ممکن ہے اس سے مراد دریائے اُرْدُن ہو یا کوئی اور ندی یا نالہ۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کو لے کر اس کے پار اُترنا چاہتا تھا ، مگر چونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی قوم کے اندر اخلاقی انضباط بہت کم رہ گیا ہے، اس لیے اس نے کار آمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش تجویز کی۔ ظاہر ہے کہ جولوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پیاس تک ضبط نہ کر سکیں، اُن پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس دشمن کے مقابلے میں پا مردی دکھائیں گے جس سے پہلے ہی وہ شکست کھا چکے ہیں۔
272- غالباً یہ کہنے والے وہی لوگ ہوں گے، جنہوں نے دریا پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مظاہرہ کر دیا تھا۔
273- دا ؤ د علیہ السّلام اُس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت دا ؤ د یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷ و ۱۸)
274- یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حدِ خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے ، مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے، تو کسی دُوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ ایک قوم اور ایک پارٹی ہی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا اور اس کی قہر مانی لازوال ہوتی، تو یقیناً ملک خدا میں فسادِ عظیم برپا ہو جاتا۔
275- مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی۔