Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 249-253

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُـنُوۡدِۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبۡتَلِيۡکُمۡ بِنَهَرٍ​ۚ فَمَنۡ شَرِبَ مِنۡهُ فَلَيۡسَ مِنِّىۡ​ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَطۡعَمۡهُ فَاِنَّهٗ مِنِّىۡٓ اِلَّا مَنِ اغۡتَرَفَ غُرۡفَةً ۢ بِيَدِهٖ​​ۚ فَشَرِبُوۡا مِنۡهُ اِلَّا قَلِيۡلًا مِّنۡهُمۡ​ؕ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ ۙ قَالُوۡا لَا طَاقَةَ لَنَا الۡيَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَجُنُوۡدِهٖ​ؕ قَالَ الَّذِيۡنَ يَظُنُّوۡنَ اَنَّهُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰهِۙ کَمۡ مِّنۡ فِئَةٍ قَلِيۡلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةً کَثِيۡرَةً ۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ؕ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿2:249﴾ وَلَمَّا بَرَزُوۡا لِجَـالُوۡتَ وَجُنُوۡدِهٖ قَالُوۡا رَبَّنَآ اَفۡرِغۡ عَلَيۡنَا صَبۡرًا وَّثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِيۡنَؕ‏ ﴿2:250﴾ فَهَزَمُوۡهُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ۙ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَاٰتٰٮهُ اللّٰهُ الۡمُلۡكَ وَالۡحِکۡمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا يَشَآءُ ​ؕ وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَعۡضٍ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَلٰـکِنَّ اللّٰهَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿2:251﴾ تِلۡكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَـتۡلُوۡهَا عَلَيۡكَ بِالۡحَـقِّ​ؕ وَاِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‏ ﴿2:252﴾ تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ​ۘ مِنۡهُمۡ مَّنۡ كَلَّمَ اللّٰهُ​ وَرَفَعَ بَعۡضَهُمۡ دَرَجٰتٍ​ؕ وَاٰتَيۡنَا عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ الۡبَيِّنٰتِ وَاَيَّدۡنٰهُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ​ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ وَلٰـكِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ كَفَرَ​ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقۡتَتَلُوۡا وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَفۡعَلُ مَا يُرِيۡدُ‏ ﴿2:253﴾

249 - پھرجب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اس نے کہا:”ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے ۔ جو اس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہےجو اس سے پیاس نہ بجھائے ، ہاں ایک آدھ چُلّو کوئی پی لے“مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ 271 پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کرکے آگے بڑھے، تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کےلشکر وں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔272 لیکن  جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سےملنا ہے، انھوں  نے کہا: ”بار ہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔“ 250 - اور جب  وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے، تو انہوں نے دعا کی: ”اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر ، ہمارے قدم جمادے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر“۔ 251 - آ خر کا ر اللہ کےاذن سے انھوں نے کافروں کومار بھگایا  اور  داوٴد ؑ  273 نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا  اور جِن جِن چیزوں کا چاہا، اس کو علم دیا۔  اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا،274 لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے(کہ وہ اس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)۔ 252 - یہ اللہ کی آیات ہیں، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سُنا رہے ہیں اور تم یقیناً  ان لوگوں میں سے ہو، جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ 253 - یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہمکلام ہوا، کسی کو  اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسٰی ؑ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا ، تو ممکن نہ تھا کہ ان  رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے۔ مگر(اللہ کی مشیّت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبّراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر  کوئی ایمان لایا اور کسی نےکفر کی راہ اختیار  کی۔ ہاں اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔275  ؏۳۳


Notes

271- ممکن ہے اس سے مراد دریائے اُرْدُن ہو یا کوئی اور ندی یا نالہ۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کو لے کر اس کے پار اُترنا چاہتا تھا ، مگر چونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی قوم کے اندر اخلاقی انضباط بہت کم رہ گیا ہے، اس لیے اس نے کار آمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش تجویز کی۔ ظاہر ہے کہ جولوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پیاس تک ضبط نہ کر سکیں، اُن پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس دشمن کے مقابلے میں پا مردی دکھائیں گے جس سے پہلے ہی وہ شکست کھا چکے ہیں۔

272- غالباً یہ کہنے والے وہی لوگ ہوں گے، جنہوں نے دریا پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مظاہرہ کر دیا تھا۔

273- دا ؤ د علیہ السّلام اُس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت دا ؤ د یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷ و ۱۸)

274- یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حدِ خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے ، مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے، تو کسی دُوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ ایک قوم اور ایک پارٹی ہی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا اور اس کی قہر مانی لازوال ہوتی، تو یقیناً ملک خدا میں فسادِ عظیم برپا ہو جاتا۔

275- مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی۔