Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 254-257

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ​ ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿2:254﴾ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الۡحَـىُّ الۡقَيُّوۡمُۚ  لَا تَاۡخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوۡمٌ​ؕ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَشۡفَعُ عِنۡدَهٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِهٖ​ؕ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ​ۚ وَلَا يُحِيۡطُوۡنَ بِشَىۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ​​ۚ وَلَا يَـُٔوۡدُهٗ حِفۡظُهُمَا ​ۚ وَ هُوَ الۡعَلِىُّ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿2:255﴾ لَاۤ اِكۡرَاهَ فِى الدِّيۡنِ​ۙ  قَد تَّبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَىِّ​ۚ فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا​​ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:256﴾ اَللّٰهُ وَلِىُّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ​ؕ  وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَوۡلِيٰٓـُٔهُمُ الطَّاغُوۡتُۙ يُخۡرِجُوۡنَهُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ​ؕ اُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ​​ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿2:257﴾

254 - اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جو کچھ  مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو 276قبل اس کے  کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ 277 255 - اللہ، وہ زندہ جاوید  ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔278نہ وہ سوتا ہے ، اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔279 زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔280، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر  سفارش کر سکے؟281 جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے او ر جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ  واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی اِلّا یہ کہ کسی  چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔282 اس کی حکومت283 آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔284 256 - دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں ہے۔285 صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت286 کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔ 257 - جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مدد گار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔287 اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں،  ان کےحامی ومدد گار طاغوت288 ہیں اور وہ انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ  آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔؏۳۴


Notes

276- مراد راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے۔ ارشا د یہ ہو رہا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی ہے، انہیں اُس مقصد کے لیے ، جس پر وہ ایمان لائے ہیں، مالی قربانیاں برداشت کرنی چاہییں۔

277- یہاں کفر کی روش اختیار کرنے والوں سے مُراد یا تو وہ لوگ ہیں ، جو خدا کے حکم کی اطاعت سے انکار کریں اور اپنے مال کو اس کی خوشنودی سے عزیز تر رکھیں۔ یا وہ لوگ، جو اُس دن پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں، جس کے آنے کا خوف دلایا گیا ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو اس خیالِ خام میں مُبتلا ہوں کہ آخرت میں انھیں کسی نہ کسی طرح نجات خرید لینے کا اور دوستی و سفارش سے کام نکال لے جانے کا موقع حاصل ہو ہی جائے گا۔

278- یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبُود بنا رکھے ہوں، مگرا صل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکتِ غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دُوسرا نہ اس کی صفات میں اُس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں جہاں بھی کسی اَور کو معبُود (الہٰ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔

279- یہ اُن لوگوں کے خیالات کی تردید ہے ، جو خداوندِ عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسُوب کرتے ہیں ، جو انسانوں کے ساتھ مخصُوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا او ر ساتویں دن آرام کیا۔

280- یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اُس چیز کا مالک ہے ، جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیّت میں، اس کی تدبیر میں اور اُس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دُوسری ہستی کا بھی تم تصوّر کر سکتے ہو، وہ بہرحال اِس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی، اور جو اس کائنات کا فر د ہے، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے، نہ کہ اُس کا شریک اور ہمسر۔

281- یہ اُن مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے،جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دُوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے، جس بات پر اَڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں ، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرّب ترین فرشتہ اُس پادشاہِ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جُراٴت نہیں رکھتا۔

282- اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اُوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدُود حاکمیّت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصوّر پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالا ستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دُوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دُوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے ، جبکہ کسی دُوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام ِ کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یاجِن یا فرشتے یا دُوسری مخلوقات، سب کا عِلم ناقص اور محدُود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جُز میں بھی کسی بندے کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے۔ نظامِ عالم تو رہا درکنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کوبھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوندِ عالم ہی پُوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اُس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے۔

283- اصل میں لفظِ”کُرْسِی“ استعمال ہوا ہے ، جسے بالعمُوم حکومت و اقتدار کے لیے اِستعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں بھی اکثر کُرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مُراد لیتے ہیں۔

284- یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اِسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔

اِس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دینِ حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُکسایا گیا ہے اور اُن کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگیِ عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دُنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مِل جاتا، تو دُوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دِلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سدِّ باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اُس نے اِن خرابیوں کو دُور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجبر روک دینا اور نوعِ انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیّت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اُس کی مشیّت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اُس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کو عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہرحال حقیقتِ نفس ُ الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبر دستی مجبُور کیا جائے۔ جو اُسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اُٹھائے گا۔

285- یہاں” دین“ سے مُراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اُوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے ، اور وہ پُورا نظامِ زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ”اسلام“ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبر دستی نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے۔

286- ”طاغوت“ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ قران کی اِصطلاح میں طاغوت سے مُراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اُصُولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر دعملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے ۔ اِس کا نام فِسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اُصُولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اَور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے مُلک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے ، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔

287- تاریکیوں سے مُراد جہالت کی تاریکیاں ہیں، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دُور نِکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صَرف کرنے لگتا ہے۔ اور نُور سے مُراد علمِ حق ہے، جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر اعلیٰ وجہ البصیرت ایک صحیح راہِ عمل پر گامزن ہوتا ہے۔

288- ”طاغُوت“یہاں طَوَاغِیْت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلّط ہو جاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دُوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے۔ اور بےشمار طاغوت باہر کی دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ بیوی اوربچّے ، اعزّہ اور اقربا ، برادری اور خاندان ، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقا ؤ ں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔