Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 258-260

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِىۡ حَآجَّ اِبۡرٰهٖمَ فِىۡ رَبِّهٖۤ اَنۡ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ الۡمُلۡكَ​ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّىَ الَّذِىۡ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُۙ قَالَ اَنَا اُحۡىٖ وَاُمِيۡتُ​ؕ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاۡتِىۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِهَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُهِتَ الَّذِىۡ كَفَرَ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ​ۚ‏ ﴿2:258﴾ اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَةٍ وَّ هِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا ​ۚ قَالَ اَنّٰى يُحۡىٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ​ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ​ؕ قَالَ كَمۡ لَبِثۡتَ​ؕ قَالَ لَبِثۡتُ يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ​ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَةَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمۡ يَتَسَنَّهۡ​ۚ وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ​ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا ​ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿2:259﴾ وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ​ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَـئِنَّ قَلۡبِىۡ​ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ​ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿2:260﴾

258 - 289کیا تم نے اس شخص کے حال  پر غور نہیں کیا ، جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ 290جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیمؑ  کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔291 جب ابراہیم ؑ نے کہا کہمیرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے،” تو اس نے جواب دیا:زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔“  ابراہیم ؑ نےکہا  : اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے،  تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔“ یہ سن کر وہ منکر ِ حق ششدر رہ گیا،292 مگراللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ 259 - یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو د یکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا،  جو  اپنی چھتیوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔293 اس نے کہا:یہ آبادی، جو ہلاک ہو چکی ہے، اسےاللہ کس طرح دو بارہ زندگی بخشے گا؟“294اس پر اللہ نےاس  کی رُوح قبض کر لی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔  پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا:بتاؤ ، کتنی مدّت پڑے رہے ہو؟“ اس نے کہا:ایک دن یا چند گھنٹے رہاہوں گا۔“ فرمایا:تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس  میں  ذرا تغیّر  نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے  گدھے کو بھی دیکھو(کہ اسکا پنجر تک بوسیدہ ہورہا ہے )۔ اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ  ہم تمہیں لوگوں کےلیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں295 ۔پھر دیکھو  کے ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت  پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔“ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایا ں ہو گئی ، تو اس نے کہامیں جانتا ہو ں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ 260 - اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہمیرے مالک ! مجھے دکھا دے تُو مردوں کو  کیسے زندہ کرتا ہے۔ فرمایا: کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟“ اس نے عرض کیاایمان تو رکھتاہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔“296 فرمایا:اچھا ، تو چار پرندے لے اورا ن کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک جز   ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں  گے۔ خوب جان لو کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے۔“297 ؏۳۵


Notes

289- اُوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اُسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی، اس لیے وضوحِ حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا، سو اللہ ان کو تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہٴ غیب میں چھُپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا۔

290- اس شخص سے مُراد نمرُود ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ کے وطن(عراق) کا بادشاہ تھا۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے۔ مگر تَلْموُد میں یہ پُورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا باپ نمرُود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار (Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے جب کھُلم کھُلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شرُوع کی اور بُت خانے میں گھُس کر بُتوں کو توڑ ڈالا، تو اُن کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہُوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے۔

291- یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بِہ ِ النّزاع تھی، وہ یہ تھی کہ ابراہیم ؑ اپنا ربّ کس کو مانتے ہیں۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اُس جھگڑنے والے شخص، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی۔ اِن دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیّت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: (۱) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصُوصیّت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ربّ الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو ربّ اور تنہا اُسی کو خدا اور معبُود نہیں مانتے۔ (۲)خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک فوق الفطری (Supernatural ) خدائی، جو سلسلہء اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رُجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اَرواح اور فرشتوں اور جِنوں اور سیّاروں اور دُوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دُعائیں مانگتے ہیں، ان کے سامنے مراسِم پرستش بجا لاتے ہیں، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدّنی اور سیاسی معاملات کی خدائی( یعنی حاکمیّت)، جو قوانینِ حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعتِ امر کی مستحق ہو، اور جسے دُنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اِس دُوسری قسم کی خدائی کو دُنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے، یا اس کے ساتھ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اِسی دُوسرے معنی میں خدائی کے مدّعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اُنہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدا ؤ ں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک ِ سازش رہے ہیں۔ (۳) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دُوسری قسم کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبّر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسبابِ عالم کے پُورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اِس ملکِ عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکمِ مطلق مَیں ہوں، میری زبان قانون ہے، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدّار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا ربّ نہ مانے یا میرے سوا کسی اَور کو ربّ تسلیم کرے۔

(۴) ابراہیم ؑ نے جب کہا کہ میں صرف ایک ربّ العالمین ہی کو خدا اور معبُود اور ربّ مانتا ہوں، اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیّت کا قطعی طور پر منکر ہوں، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبُودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابلِ برداشت ہے، بلکہ یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زَد پڑتی ہے، اُسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جُرمِ بغاوت کے الزام میں نمرُود کے سامنے پیش کیے گئے۔

292- اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ربّ اللہ کےسوا کوئی دُوسرا نہیں ہوسکتا، تاہم نمرُود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا۔ لیکن دُوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی خدا کے زیرِ فرمان ہیں، جس کو ابراہیم ؑ نے ربّ مانا ہے۔ پھر وہ کہتا، تو آخر کیا کہتا؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے نِکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کی اس تبلیغ کے بعد راہِ راست کھُل جاتی ۔ تلموُد کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑ قید کر دیے گئے۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے اُن کوزندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا، جو سُورہ انبیاء ، رکوع ۵، العنکبوت، رکوع ۳-۲، اور الصافّات، رکوع ۴ میں بیان ہوا ہے۔

293- یہ ایک غیر ضروری بحث ہے کہ وہ شخص کون تھا اور وہ بستی کون سی تھی ۔ اصل مدّعا جس کے لیے یہاں یہ ذکر لایا گیا ہے، صرف یہ بتانا ہے کہ جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا تھا، اُسے اللہ نے کس طرح روشنی عطا کی۔ شخص اور مقام، دونوں کی تعیین کا نہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ، نہ اس کا کوئی فائدہ۔ البتہ بعد کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن صاحب کا یہ ذکر ہے، وہ ضرور کوئی نبی ہوں گے۔

294- اس سوال کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بزرگ حیات بعد الموت کے منکر تھے یا انھیں اس میں شک تھا، بلکہ دراصل وہ حقیقت کا عینی مشاہدہ چاہتے تھے، جیسا کہ انبیا کو کرایا جاتا رہا ہے۔

295- ایک ایسے شخص کا زندہ پلٹ کر آنا جسے دُنیا سو (۱۰۰) برس پہلے مُردہ سمجھ چکی تھی ، خود اس کو اپنے ہم عصروں میں ایک جیتی جاگتی نشانی بنا دینے کے لیے کافی تھا۔

296- یعنی وہ اطمینان ، جو مشاہدہٴ عینی سے حاصل ہوتا ہے۔

297- اس واقعے اور اُوپر کے واقعے کی بعض لوگوں نے عجیب عجیب تاویلیں کی ہیں لیکن انبیا علیہم السّلام کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہے، اُسے اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے، تو کسی کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ عام اہلِ ایمان کو اِس زندگی میں جو خدمت انجام دینی ہے، اس کے لیے تو محض ایمان بالغیب (بے دیکھے ماننا) کافی ہے۔ لیکن انبیا کو جو خدمت اللہ نے سپُرد کی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ حقیقتیں دیکھ لیتے جن پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دُنیا کو دینی تھی۔ اُن کو دُنیا سے پُورے زور کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ تم لوگ تو قیاسات دَوڑاتے ہو، مگر ہم آنکھوں دیکھی بات کہہ رہےہیں۔ تمہارے پاس گمان ہے اور ہمارے پاس علم ہے، تم اندھے ہو اور ہم بینا ہیں۔ اِسی لیے انبیا کے سامنے فرشتے عیاناً آئے ہیں، ان کو آسمان و زمین کے نظامِ حکومت(ملکوت)کا مشاہدہ کرایا گیا ہے، ان کو جنت اور دوزخ آنکھوں سے دکھائی گئی ہے، اور بعث بعد الموت کا ان کے سامنے مظاہرہ کر کے دکھا یا گیا ہے۔ ایمان بالغیب کی منزل سے یہ حضرات منصب نبوّت پر مامو ر ہونے سے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں۔ نبی ہونے کےبعد ان کو ایمان بالشہادۃ کی نعمت دی جاتی ہے اور یہ نعمت اُنہی کے ساتھ مخصُوص ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ نمبر ۳۳۰ و ۳۳۴)۔