Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 261-266

مَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِىۡ كُلِّ سُنۡۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ​ؕ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:261﴾ اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا يُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًى​ۙ لَّهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ​ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏ ﴿2:262﴾ قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّمَغۡفِرَةٌ خَيۡرٌ مِّنۡ صَدَقَةٍ يَّتۡبَعُهَاۤ اَذًى​ؕ وَاللّٰهُ غَنِىٌّ حَلِيۡمٌ‏ ﴿2:263﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ كَالَّذِىۡ يُنۡفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ​ؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَيۡهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلۡدًا ​ؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ عَلٰى شَىۡءٍ مِّمَّا كَسَبُوۡا ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿2:264﴾ وَمَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثۡبِيۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ كَمَثَلِ جَنَّةٍۢ بِرَبۡوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُكُلَهَا ضِعۡفَيۡنِ​ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يُصِبۡهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ​ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿2:265﴾ اَيَوَدُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ تَكُوۡنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُۙ لَهٗ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِۙ وَاَصَابَهُ الۡكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُ ۖۚ فَاَصَابَهَاۤ اِعۡصَارٌ فِيۡهِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ​ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿2:266﴾

261 - 298جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں 299، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانا  بویا جائے اور اس کے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔300 262 - جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔301 263 - ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر  ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے  بہتر ہے، جس کے پیچھےدکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور برد باری اس کی صفت302 ہے۔ 264 - اے ایمان لانے والو!اپنے  صدقات کو احسان جتاکر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک  میں نہ ملا دو ، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہےاور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت303 پر ۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی ۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئ اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔304 ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھا نا اللہ کا دستور نہیں ہے305 ۔ 265 - بخلاف اس کے جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا  جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، ان کےخرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی  سطح مرتفع پر ایک باغ ہو۔ اگر زور کی بارش ہو جائے تو دوگنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوارہی اس کے لیے کافی ہو جائے۔306 تم جو کچھ کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ 266 - کیا تم میں سے کوئی یہ  پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ہو، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بھگولے کی زد میں آکر جھلس جائے، جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کمسن  بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟307 اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور وفکر کرو۔؏۳۶


Notes

298- ”اب پھر سلسلہ ء کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے، جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ِ ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصدِ عظیم پر تم ایمان لائے ہو ، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اُس کا معاشی نقطہء نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صَرف کرنے لگے۔ مادّہ پرست لوگ، جو پیسہ کمانے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ اِس ذہنیّت کے ساتھ اُس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دُنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دُوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں۔ اس کے لیے نظر کی وسعت ، حوصلے کی فراخی، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیّت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔

299- مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں ، یا اپنے اعزّہ و اقربا کی خبر گیری میں ، یامحتاجوں کی اعانت میں ، یا رفاہِ عام کے کاموں میں، یا اشاعتِ دین اور جہاد کے مقاصد میں، بہرحال اگر وہ قانونِ الہٰی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شما ر اللہ ہی کی راہ میں ہو گا۔

300- یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو، وہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو ، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے۔

301- یعنی نہ تو اُن کے لیے اس بات کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کا اجر ضائع ہو جائے گا اور نہ کبھی یہ نوبت آئے گی کہ وہ اپنے اس خرچ پر پشیمان ہوں۔

302- اس ایک فقرے میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تمہاری خیرات کا حاجت مند نہیں ہے۔ دُوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بُردبار ہے، اس لیے اُسے پسند بھی وُہی لوگ ہیں ، جو چھچورے اور کم ظرف نہ ہوں، بلکہ فراخ حوصلہ اور بردبار ہوں۔ جو خدا تم پر زندگی کے اسباب و وسائل کا بے حساب فیضان کر رہا ہے اور تمہارے قصوروں کے باوجود تمہیں بار بار بخشتا ہے، وہ ایسے لوگوں کو کیونکر پسند کر سکتا ہے ، جو کسی غریب کو ایک روٹی کھلادیں، تو احسان جَتا جَتا کر اس کی عزّتِ نفس کو خاک میں ملا دیں۔ اسی بنا پر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے روز شرفِ ہمکلامی اور نظر عنایت سے محرُوم رکھے گا، جو اپنے عطیے پر احسان جَتاتا ہو۔

303- اس کی ریاکاری خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔ اُس کا محض لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا صریحاً یہ معنی رکھتا ہے کہ خلق ہی اس کی خدا ہے جس سے وہ اجر چاہتا ہے ، اللہ سے نہ اس کو اجر کی توقع ہے اور نہ اسے یقین ہے کہ ایک روز اعمال کا حساب ہوگا اور اجر عطا کیے جائیں گے۔

304- اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اُس نیت اور اُس جذبے کی خرابی ہے، جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے، جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشونما پائے ۔ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اُوپر ہی اُوپر ہو، اور اس اُوپری تہہ کے نیچے نِری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو، تو بارش مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مُضِر ہوگی۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشونما دینے کی قوت رکھتی ہے ، مگر اس کےنافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے۔ نیت نیک نہ ہو تو ابرِ کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاعِ مال ہے اَور کچھ نہیں۔

305- یہاں” کافر“ لفط نا شکرے اور منکرِ نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جو شخص اللہ دی ہوئی نعمت کو اس کی راہ میں اس کی رضا کے لیے خرچ کرنے کے بجائے خلق کی خوشنودی کے لیے صرف کرتا ہے، یا اگر خدا کی راہ میں کچھ مال دیتا بھی ہے ، تو اس کے ساتھ اذِیّت بھی دیتا ہے، وہ دراصل ناشکرا اور اپنے خدا کا احسان فراموش ہے۔ اور جب کہ وہ خود ہی خدا کی رضا کا طالب نہیں ہے تو اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ اسے خواہ مخواہ اپنی رضا کا راستہ دکھائے۔

306- ”زور کی بارش“ سے مراد وہ خیرات ہے ، جو انتہائی جذبہء خیر اور کمال درجے کی نیک نیتی کے ساتھ کی جائے۔اور ایک ہلکی پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے ، جس کے اندر جذبہء خیر کی شدّت نہ ہو۔

307- یعنی اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری عمر بھر کی کمائی ایک یسے نازک موقع پر تباہ ہوجائے، جبکہ تم اُس سے فائدہ اُٹھانے کے سب سے زیادہ محتاج ہو اور ازسرِ نو کما ئی کرنے کا موقع بھی باقی نہ رہا ہو، تو یہ بات تم کیسے پسند کر رہے ہو کہ دُنیا میں مدّت العمر کام کرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں تم اِس طرح قدم رکھو کہ وہاں پہنچ کر یکایک تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا پُورا کارنامہء حیات یہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا، جو کچھ تم نے دُنیا کے لیے کمایا تھا، وہ دُنیا ہی میں رہ گیا، آخرت کے لیے کچھ کما کر لائے ہی نہیں کہ یہاں اُس کے پھل کھا سکو۔ وہاں تمہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ ازسرِ نو اب آخرت کے لیے کمائی کرو۔ آخرت کے لیے کام کرنے کا جو کچھ بھی موقع ہے، اِسی دُنیا میں ہے۔ یہاں اگر تم آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دُنیا ہی کی دُھن میں لگے رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دُنیوی فائدے تلاش کرنے ہی میں کھپاتے رہے ، تو آفتابِ زندگی کے غروب ہونے پر تمہاری حالت بعینہ اُس بڈھے کی طرح حسرت ناک ہوگی، جس کی عمر بھر کی کمائی اور جس کی زندگی کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ عین عالمِ پیری میں اُس وقت جل گیا، جبکہ نہ وہ خود نئے سرے سے باغ لگا سکتا ہے اور نہ اُس کی اولاد ہی اس قابل ہے کہ اس کی مدد کر سکے۔