Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 267-273

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِ​ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ‏ ﴿2:267﴾ اَلشَّيۡطٰنُ يَعِدُكُمُ الۡـفَقۡرَ وَيَاۡمُرُكُمۡ بِالۡفَحۡشَآءِ​ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمۡ مَّغۡفِرَةً مِّنۡهُ وَفَضۡلًا ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌۚ  ۙۖ‏ ﴿2:268﴾ يُؤۡتِى الۡحِكۡمَةَ مَنۡ يَّشَآءُ​​ ۚ وَمَنۡ يُّؤۡتَ الۡحِكۡمَةَ فَقَدۡ اُوۡتِىَ خَيۡرًا كَثِيۡرًا​ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ‏ ﴿2:269﴾ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَةٍ اَوۡ نَذَرۡتُمۡ مِّنۡ نَّذۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُهٗ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ‏ ﴿2:270﴾ اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ​ۚ وَاِنۡ تُخۡفُوۡهَا وَ تُؤۡتُوۡهَا الۡفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّكُمۡ​ؕ وَيُكَفِّرُ عَنۡكُمۡ مِّنۡ سَيِّاٰتِكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿2:271﴾ لَيۡسَ عَلَيۡكَ هُدٰٮهُمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَلِاَنۡفُسِكُمۡ​ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ اللّٰهِ​ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ يُّوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:272﴾ لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِى الۡاَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ الۡجَاهِلُ اَغۡنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ​ۚ تَعۡرِفُهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡ​ۚ لَا يَسۡـئَلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَـافًا ​ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ‏ ﴿2:273﴾

267 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اس  میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ  اس کی راہ میں دینے کےلیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشسش کرنے لگو، حالانکہ  وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے ، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گےاِلّا یہ کہ  اس کو قبول کرنے میں تم  اغماض برت جاؤ۔تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے308 ۔ 268 - شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے ۔ 269 - جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی  ، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔309 اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں ،جو دانشمند ہیں۔ 270 - تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نظر بھی مانی ہو ، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔310 271 - اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کودو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔311 تمہاری بہت سی بُرائیاں اِس طرزِ عمل سے محوہوجاتی ہیں۔312 اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے۔ 272 - لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمّےداری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلاہے۔ آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم خیرات کروگے، اس کا پُورا پُورا  اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔ 313 273 - خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خودداری دیکھ کرنا واقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگےوہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہےگا۔ 314؏۳۷


Notes

308- ظاہر ہے کہ جو خود اعلیٰ درجہ کی صفات سے متّصف ہو، وہ بُرے اوصاف رکھنے والوں کو پسند نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ خود فیاض ہے اور اپنی مخلوق پر ہر آن بخشش وعطا کے دریا بہا رہا ہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ وہ تنگ نظر، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں سے محبت کرے۔

309- حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوّتِ فیصلہ ہے۔ یہاں اس ارشاد سے مقصُود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہو گی، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا، بلکہ اُس راہِ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نُور پایا ہے، اُن کی نظر میں یہ عین بے وقوفی ہے۔ حکمت و دانائی اُن کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے ، اُسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بَھلائی کے کاموں میں خرچ کرے۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دُنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دُوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو، لیکن انسان کے لیے یہ دُنیا کی زندگی پُوری زندگی نہیں، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جُز ہے۔ اس چھوٹے سے جُز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بے پایاں زندگی کی بدحالی مُول لیتا ہے، وہ حقیقت میں سخت بے وقوف ہے۔ عقل مند دراصل وہی ہے ، جس نے اس مختصر زندگی کی مُہلت سے فائدہ اُٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اُس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کر لیا۔

310- خرچ خواہ راہِ خدا میں کیا ہو یا راہِ شیطان میں ، اور نذر خواہ اللہ کے لیے مانی ہو یا غیر اللہ کے لیے، دونوں صُورتوں میں آدمی کی نیّت اور س کے فعل سے اللہ خوب واقف ہے۔ جنہوں نے اُس کے لیے خرچ کیا ہوگا اور اس کی خاطر نذر مانی ہوگی، وہ اس کا اجر پائیں گے اور جن ظالموں نے شیطانی راہوں میں خرچ کیا ہو گا اور اللہ کو چھوڑ کر دُوسروں کے لیے نذر مانی ہوں گی اُن کو خدا کی سزا سے بچانے کے لیے کوئی مددگار نہ ملے گا۔

نذر یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مُراد کے بر آنے پر کسی ایسے خرچ یا کسی ایسی خدمت کو اپنے اُوپر لازم کر لے ، جو اس کے ذمّے فرض نہ ہو۔ اگر یہ مراد کسی حلال و جائز امر کی ہو، اور اللہ سے مانگی گئی ہو، اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے، وہ اللہ ہی کے لیے ہو، تو ایسی نذر اللہ کی اطاعت میں ہے اور اس کا پورا کرنا اجر و ثواب کا موجب ہے۔ اگر یہ صُورت نہ ہو ، تو ایسی نذر کا ماننا معصیت اور اس کا پُورا کرنا مُوجبِ عذاب ہے۔

311- جو صدقہ فرض ہو، اس کو عَلانیہ دینا افضل ہے، اور جو صدقہ فرض کے ماسوا ہو، اس کا اخفا زیادہ بہتر ہے۔ یہی اُصُول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا علانیہ انجام دینا افضلیت رکھتا ہے اور نوافل کو چھُپا کر کرنا اَولیٰ ہے۔

312- یعنی چھُپا کر نیکیاں کرنے سے آدمی کے نفس و اخلاق کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے، اس کے اَوصافِ حمیدہ خوب نشونما پاتے ہیں، اس کی بُری صفات رفتہ رفتہ مِٹ جاتی ہیں ، اور یہی چیز اس کو اللہ کے ہاں اتنا مقبُول بنا دیتی ہے کہ جو تھوڑے بہت گناہ اس کے نامہء اعمال میں ہوتے بھی ہیں انہیں اس کی خوبیوں پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔

313- ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہلِ حاجت کی مدد کرنے میں تامّل کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دُور کی گئی ہے۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوںمیں ہدایت اُتار دینے کی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سُبکدوش ہوچکے۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نُور عطا کرے یا نہ کرے۔ رہا دُنیوی مال و متاع سے اُن کی حاجتیں پُوری کرنا، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامّل نہ کرو کہ اُنہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا۔

314- اِس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس قسم کے رضا کاروں کا مستقل گروہ تھا، جو تاریخ میں اصحابِ صُفّہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تین چار سو آدمی تھے، جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آگئے تھے۔ ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے۔ حضور جس مہم پر چاہتے انھیں بھیج دیتے تھے، اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا، اس وقت یہ مدینے ہی میں رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ پُورا وقت دینے والے کارکن تھے اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے، اِ س لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجّہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے۔