Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 274-281

اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ​ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏  ﴿2:274﴾ اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ​ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَيۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا​ ۘ​ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا​ ؕ فَمَنۡ جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمۡرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ​ؕ وَمَنۡ عَادَ فَاُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ​ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏  ﴿2:275﴾ يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِى الصَّدَقٰتِ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ‏ ﴿2:276﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ​ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏ ﴿2:277﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2:278﴾ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ​ۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡ​ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ‏  ﴿2:279﴾ وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ​ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ​ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:280﴾ وَاتَّقُوۡا يَوۡمًا تُرۡجَعُوۡنَ فِيۡهِ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفۡسٍ مَّا كَسَبَتۡ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:281﴾

274 - جو لوگ اپنے مال شب وروز کھُلے اور چھُپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اور اُن کےلیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔ 275 - مگر جو لوگ سُود کھاتے ہیں315 ، اُن کا حال اُس شخص کاسا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چُھوکر باوٴلا کر دیا ہو۔ 316اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:”تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی ہے317“، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔318 لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ 319اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ 276 - اللہ سُود کا مَٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے۔ 320اور اللہ کِسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا  321۔ 277 - ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں، اُن کا اجر بے شک ان کے ربّ کے پاس ہے اور ان کےلیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔ 322 278 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، خُدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سُود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ 279 - لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہو جاوٴ کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ  کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ 323ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ 280 - تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو  ہاتھ کھُلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صد قہ کردو ، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو324 ۔ 281 - اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا  پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔؏۳۸


Notes

315- اصل میں لفظ”رِبٰوا“استعمال ہوا ہے ، کس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اِصطلاحاً اہلِ عرب اِس لفظ کو اُس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وُصُول کرتا ہے۔ اِسی کو ہماری زبان میں سُود کہتے ہیں۔ نزُولِ قرآن کے وقت سُودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہلِ عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دُوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدّت مقرر کر دیتا۔ اگر وہ مدّت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی ، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔ یا مثلاً ایک شخص دُوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سےطے کر لیتا کہ اتنی مدّت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدّت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدّت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی ، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ اِسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔

316- اہلِ عرب دیوانے آدمی کو”مجنُون“ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ، تو یُوں کہتے کے اسے جِن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سُود خوار کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبُوط الحواس ہو گیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے، اسی طرح سُود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنُون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سُود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخُوّت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں، اجتماعی فلاح و بہبُود پر کس قدر تباہ کُن اثر پرڑ رہا ہے ، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اِس دُنیا میں ہے۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اُسی حالت میں اُٹھایا جائے گا جس حالت پر اُس نے دنیا میں جان دی ہے، اِس لیے سُود خوار آدمی قیامت کے روز ایک با ؤلے ، مخبوط الحواس انسان کی صُورت میں اُٹھے گا۔

317- ”یعنی ان کے نظریّے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے ، اس کی نوعیت اور سُود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یُوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہُوئے روپے کا منافع جائز ہے ، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو۔ اِسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کے سُود خوار بھی سُود کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اُٹھا سکتا تھا، اُسے وہ قرض پر دُوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے۔ وہ دُوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اُٹھا رہا ہے ، اس میں سے ایک حصّہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دُنیا میں جتنے کاروبار ہیں ، خوا ہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زرعت کے ، اور خواہ انھیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے، اُن میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ(Risk ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو۔ پھر آخر پوری کاروباری دُنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دارہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے۔ معاملہ اُسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں ، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبارکا بار آور ہونا موقوف ہے ، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل اُنہی کے سر ہو، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شُدہ منافع وُصُول کرتا چلا جائے! یہ آخر کس عقل ، کس منطق، کس اُصُولِ انصاف اور کس اُصُولِ معاشیات کی رُو سے درست ہے؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اُتار چڑھا ؤ ہو گا؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں، مگر ساری قوم کے اند رسے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سُودوصُول کرتا رہے؟

318- تجارت اور سُود کا اُصُولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے׃ (١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اُٹھاتا ہے جو اُس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اُس محنت ، ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیّا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سُودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سُود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سُود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مُہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مُہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اُسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دُوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دُوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ (۲)تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے، ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سُود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصُول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اُٹھاتا ہے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پُوری کمائی، اس کے تمام وسائل ِ معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔ (۳)تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے، صَرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ کرایہ دار کو واپس دے دی جاتی ہے ۔ لیکن سُود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صَرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔ (۳) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سُودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دُوسروں کی کمائی میں شریکِ غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اِصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظِ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔

ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سُود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدّن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سُود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سُود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی رُوح کو فنا کر دیتا ہے۔ اس بنا پر سُود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے۔

319- یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا، اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اُس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سُودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ ء نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لُطف اُٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔

320- ”اِ س آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے ، جو اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر سُود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ سُود اخلاقی و رُوحانی اور معاشی و تمدّنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزّل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اس کے برعکس صدقات سے (جن میں قرضِ حسن بھی شامل ہے) اخلاق و رُوحانیت اور تمدّن و معیشت ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے۔ اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے دیکھیے ، تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سُود دراصل خود غرضی، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ اِنہی صفات کو انسان میں نشونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیّاضی، ہمدردی ، فراخ دِلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموُ عے کو بدترین اور دُوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟ تمدّنی حیثیت سے دیکھیے، تو بادنٰی تامّل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دُوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں ، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے ، ایک آدمی کی حاجت مندی کو دُوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اُٹھائے ، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامُة الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے، ایسی سوسا ئیٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو نما پائے گی۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دُوسرے اسباب بھی اِس صورت ِ حال کے لیے مددگار ہو جائیں، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دُوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دُوسرے کی حاجت کے موقع پر فارخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے، اور جس میں با وسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشونما پائے گی۔ اس کے اجزا ایک دُوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دُوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا ۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔ اب معاشی حیثیت سے دیکھیے۔ معاشیات کے نقطہ ء نظر سے سُودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر نے کے لیے مجبُور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس پر سُود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کُن ہے ۔ دُنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدُور وں کا ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چُوس رہے ہوں۔ سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل، بلکہ بسا اوقات نا ممکن ہو جا تا ہے۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دُوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سُود دے چکنے پر بھی اصل رقم جُوں کی تُوں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصّہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ پانے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دُوسرا لے اُڑے تو وہ کبھی دِل لگا کر محنت نہیں کر سکتے۔ پھر سُودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھُلا دیتی ہے ، اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے ، کہ ان کی صحتیں کبھی درُست نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح سُودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چُوس چُوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائشِ دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے، اور مآلِ کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصّے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اُٹھتا اور گھُٹتا رہتا ہے، اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ رہا دُوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے ، تو اس پر ایک مقرر شرحِ سُود کے عائد ہونے سے جو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں : (١) جو کام رائج الوقت شرحِ سُود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں ، چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہا ؤ ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے ، جو بازار کی شرحِ سُود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں ، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کافائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔ (۲) جن کاموں کے لیے سُود پر سرمایہ ملتا ہے، خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر معیاد ، مثلاً پانچ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اُوپر اُوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا۔ اِس کی ضمانت ہو نا تو درکنار ، کسی کاروبار میں سرے سے اِسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہو گا، نقصان کبھی نہ ہوگا۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو، نقصان اور خطرے کے پہلو ؤ ں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ (۳) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرحِ منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے ، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور بُرائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی خود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے، اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے ، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے۔ اِس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے ، او ر کبھی اگر دُوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کُن حد تک پہنچا دیتی ہے۔ سُود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مَس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کی رُو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے۔

اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریقِ کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پُوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سُود قرض دیں، یا شرکت کے اُصُول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصّہ دار بن جائیں، یا حکومت کے پاس جمع کردیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے، تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت، ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہوگا۔ اُس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت ِ مجموعی دولت کی پیداوار اُس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سُود کا رواج ہو۔

321- ظاہر ہے کہ سُود پر روپیہ وُہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصّہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصّہ ، جو ایک شخص کو ملتا ہے، قرآن کے نقطہء نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دُوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصّہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصّے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بدعمل بھی۔

322- اس رکوع میں اللہ تعالیٰ بار بار دو قسم کے کرداروں کو بالمقابل پیش کر رہا ہے۔ ایک کردار خود غرض، زر پرست، شائیلاک قسم کے انسان کا ہے، جو خدا اور خلق دونوں کے حقوق سے بےپروا ہو کر روپیہ گننے اور گِن گِن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے اس کو بڑھانے اور اس کی بڑھوتری کا حساب لگانے میں منہمک ہو۔ دُوسرا کردار ایک خدا پرست، فیّاض اور ہمدرد انسان کا کردار ہے، جو خدا اور خلقِ خدا دونوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہو، اپنی قوتِ بازو سے کما کر خود کھائے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو کھلائے اور دل کھول کر نیک کاموں میں خرچ کرے۔ پہلی قسم کا کردار خدا کو سخت نا پسند ہے۔ دنیا میں اس کردار پر کوئی صالح سوسائیٹی نہیں بن سکتی ، اور آخرت میں ایسے کردار کے لیے غم و اندوہ اور کلفت و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اللہ کو دُوسری قسم کا کردار پسند ہے، اسی سے دُنیا میں صالح سوسائیٹی بنتی ہے اور وہی آخرت میں انسان کے لیے موجبِ فلاح ہے۔

323- یہ آیت فتحِ مکّہ کے بعد نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اِس سلسلہ ٴ کلام میں داخل کر دی گئی ۔ اس سے پہلے اگرچہ سُود ایک ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا مگر قانوناً اسے بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس آیت کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سُودی کاروبار ایک فوجداری جُرم بن گیا۔ عرب کے جو قبیلے سُود کھاتے تھے ، اُن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عُمّال کے ذریعے سے آگاہ فرمادیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے، تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ نَجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکعمت کے تحت اندرونی خود مختاری دی گئی، تو معاہدے میں یہ تصریح کر دی گئی کہ اگر تم سُودی کاروبار کرو گے، تو معاہدہ فسخ ہو جائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالتِ جنگ قائم ہو جائے گی۔ آیت کے آخری الفاظ کی بنا پر ابن عباس ، حسن بصری، ابن سیرین اور ربیع بن انس کی رائے یہ ہے کہ جو شخص دارالا سلام میں سُود کھائے اسے توبہ پر مجبور کیا جائے اور اگر باز نہ آئے، تو اسے قتل کر دیا جائے۔ دُوسرے فقہا کی رائے میں ایسے شخص کو قید کر دینا کافی ہے۔ جب تک وہ سُود خواری چھوڑ دینے کا عہد نہ کرے، اسے نہ چھوڑا جائے۔

324- اسی آیت سے شریعت میں یہ حکم نکا لا گیا ہے کہ جو شخص ادائے قرض سے عاجز ہوگیا ہو ، اسلامی عدالت اس کے قرض خواہوں کو مجبور کرے گی کہ اُسے مہلت دیں، اور بعض حالات میں وہ پورا قرض یا قرض کا ایک حصّہ معاف بھی کرانے کی مجاز ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کے کاروبار میں گھاٹا آگیا اور اس پر قرضوں کا بار بہت چڑھ گیا ۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے لوگوں سے اپیل کی کہ اپنے اس بھائی کی مدد کرو۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس کو مالی امداد دی۔ مگر قرضے پھر بھی صاف نہ ہوسکے۔ تب آپ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ جوکچھ حاضر ہے، بس وہی لے کر اسے چھوڑ دو، اس سے زیادہ تمہیں نہیں دلوایا جا سکتا ۔ فقہا نے تصریح کی ہے کہ ایک شخص کے رہنے کا مکان، کھانے کے برتن، پہنّے کے کپڑے اور وہ آلات جن سے وہ اپنی روزی کماتا ہو، کسی حالت میں قرق نہیں کیے جا سکتے۔