Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 284-286

لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ وَاِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُ​ؕ فَيَـغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿2:284﴾ اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مِنۡ رَّبِّهٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ​ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓـئِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِهٖ​ وَقَالُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا​ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿2:285﴾ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا ​ؕ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا اكۡتَسَبَتۡ​ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ​ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ​​ۚرَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ​ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا وَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ‏  ﴿2:286﴾

284 - 333آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، سب اللہ کاہے۔334 تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چُھپاوٴ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔ 335پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے ، معاف کردے اور جسے چاہے، سزا دے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔336 285 - رسُول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اِس رسُول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ”ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے حکم سُنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک !ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔337 286 - اللہ کسی متنفّس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔338 ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔339 (ایمان لانے والو! تم یوں دُعا کرو) اے ہمارے ربّ ! ہم سے بھول چُوک میں جو قصور ہو جائیں،ان پر گرفت نہ کرنا۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔340 پروردگار !جس بار کو اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ۔341 ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تُو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔342؏۴۰


Notes

333- یہ خاتمہء کلام ہے۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی اُن تمام اُصُولی اُمور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دینِ اسلام کی اساس قائم ہے۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔

334- یہ دین کی اوّلین بنیا د ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مالکِ زمین و آسمان ہونا اور اُن تمام چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں، اللہ ہی کی مِلک ہونا، در اصل یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس کی بنا پر انسان کے لیے کوئی دوسرا طرزِ عمل اس کے سوا جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دے۔

335- اس فقرے میں مزید دو باتیں ارشاد ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر انسان فرداً فرداً اللہ کے سامنے ذمّہ دار اور جواب دہ ہے۔ دُوسرے یہ کہ جس پادشاہِ زمین و آسمان کے سامنے انسان جواب دہ ہے، وہ غیب و شہادت کا علم رکھنے والا ہے، حتٰی کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

336- یہ اللہ کے اختیارِ مطلق کا بیان ہے۔ اُس کو کسی قانون نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ اُس کے مطابق عمل کرنے پر وہ مجبور ہو، بلکہ وہ مالکِ مختار ہے۔ سزا دینے اور معاف کرنے کے کلّی اختیارات اس کو حاصل ہیں۔

337- اس آیت میں تفصیلات سے قطع نظر کر کے اسلام کے عقائد اور اسلامی طرزِ عمل کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اور اس کی کتابوں کو ماننا۔ اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کرنا بغیر اس کے کہ ان کے درمیان فرق کیا جائے ( یعنی کسی کو مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے)۔ اور اس امر کو تسلیم کرنا کہ آخر کار ہمیں اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ یہ پانچ امور اسلام کے بنیادی عقائد ہیں۔ اِن عقائد کو قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم پہنچے، اُسے وہ بسر و چشم قبول کرے، اس کی اطاعت کرے، اور اپنے حسنِ عمل پر غرّہ نہ کرے، بلکہ اللہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا رہے۔

338- یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہر گز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تُو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے موٴ اخذہ کرے کہ تُو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا۔

339- “یہ اللہ کے قانونِ مجازات کا دُوسرا قاعدہٴ کلیہ ہے۔ ہر آدمی انعام اُسی خدمت پر پائے گا۔ جو اس نے خود انجام دی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دُوسرا انعام پائے۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصُور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصُور میں دُوسرا پکڑا جائے۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں ۔ اور ایک دُوسرے شخص نے کسی بُرائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالمِ اوّل کے حساب میں درج ہوتا رہے۔ لیکن یہ اچھا یا بُرا، جو کچھ بھی پھل ہوگا، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہو گا۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بِھلائی یا جس بُرائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصّہ نہ ہو، اس کی جزا یا سزا اسے مِل جائے۔ مکافاتِ عمل کو ئی قابل انتقال چیز نہیں ہے۔

340- یعنی ہمارے پیش رووں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں ، جن زبردست ابتلا ؤ ں سے وہ گزرے، جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا، اُن سے ہمیں بچا۔ اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے ، اُسے سخت ازمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اورجب آزمائشیں پیش آئیں تو مومن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے۔ لیکن بہرحال مومن کو اللہ سے دُعا یہی کرنی چاہیے کہ وہ اس کے لیے حق پرستی کی راہ آسان کر دے۔

341- یعنی مشکلات کا اتنا ہی بار ہم پر ڈال ، جسے ہم سہار لے جائیں۔ آزمائشیں بس اتنی ہی بھیج کہ ان میں ہم پُورے اُتر جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوتِ برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہَ حق سے ڈگمگا جائیں۔

342- اس دُعا کی پوری رُوح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں ، جبکہ مکّے میں کُفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے، اور صرف مکّہ ہی نہیں ، بلکہ سرزمینِ عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندہٴ خدا نے دینِ حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے، تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمُولی تسکینِ قلب کی موجب ہوئی۔ علاوہ بریں اس دعا میں ضمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رُخ پر نہ بہنے دیں، بلکہ انہیں اس دُعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف اُن روح فرسا مظالم کو دیکھیے ، جو محض حق پرستی کے جرم میں اُن لوگوں پر توڑے جارہے تھے ، اور دُوسری طرف اِ س دُعا کو دیکھیے، جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں۔ ایک طرف اُس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے ، جن میں یہ لوگ مُبتلا تھے، اور دُوسری طرف اُس دُعا کو دیکھیے جس میں کسی دُنیوی مفاد کی طلب کا ادنٰی نشان تک نہیں ہے ۔ ایک طرف اِن حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے، اور دُوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے، جن سے یہ دُعا لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و رُوحانی تربیت دی جا رہی تھی۔