Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 40-46

يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَاَوۡفُوۡا بِعَهۡدِىۡٓ اُوۡفِ بِعَهۡدِكُمۡۚ وَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ‏ ﴿2:40﴾ وَاٰمِنُوۡا بِمَآ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمۡ وَلَا تَكُوۡنُوۡآ اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ​ وَلَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰيٰتِىۡ ثَمَنًا قَلِيۡلًا وَّاِيَّاىَ فَاتَّقُوۡنِ‏ ﴿2:41﴾ وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوا الۡحَـقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:42﴾ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارۡكَعُوۡا مَعَ الرّٰكِعِيۡنَ‏  ﴿2:43﴾ اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَتَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَكُمۡ وَاَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡكِتٰبَ​ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿2:44﴾ وَاسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ​ؕ وَاِنَّهَا لَكَبِيۡرَةٌ اِلَّا عَلَى الۡخٰشِعِيۡنَۙ‏ ﴿2:45﴾ الَّذِيۡنَ يَظُنُّوۡنَ اَنَّهُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّهِمۡ وَاَنَّهُمۡ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ‏ ﴿2:46﴾

40 - اے بنی اسرائیل56! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی ، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے تم  ڈرو۔ 41 - اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاوٴ۔یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاوٴ۔تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو57 اور میرے غضب سے بچو۔ 42 - باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناوٴاور نہ جانتے بوجھتےحق کو چھپانے کی کوشش کرو۔58 43 - نماز قائم کرو ، زکوٰة دو59، اور جو لوگ میرے آگے جُھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جُھک جاوٴ۔ 44 - تم دُوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ۔کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے  ؟ 45 - صبر اور نماز سے60 مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے ،مگر ان فرمانبردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے 46 - جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے ربّ سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ  کرجانا ہے۔61 ؏۵


Notes

56- اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے اُن لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسبِ ذیل باتوں کو خاص طَور پر پیش ِ نظر رکھنا چاہیے: اوّلاً، اِس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی اُمت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاح کا عنصر موجود ہے، اُنہیں اُس صداقت پر ایمان لانے اور اُس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد ؐ اُٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور یہ نبی ؐ وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دُنیا کو بھی اس کی طرف بُلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے، خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے ، تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بُوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کر لو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا ، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اُٹھے ہیں ، ان کا ساتھ دو۔ ثانیاً، اس کا منشا عام یہودیوں پر حُجّت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ وہی دین ہے ، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اُصولِ دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں ، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بُری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے اِستِشْہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں ، وسوسہ اندازیوں ، کج بحثیوں اور مکّاریوں سے کام لے رہے تھے، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد ؐ کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیّت محض ایک ڈھونگ ہے، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پُھول سکے۔ اِس طرح اتمامِ حجّت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اُس کی آنکھیں کُھل گئیں، دُوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکینِ عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا ، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہوگئیں کہ وہ اس جُراٴ ت کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔ ثالثًا، پچھلے چار رکوعوں میں نوعِ انسانی کو دعوتِ عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا ، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے ، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوامِ عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الہٰی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رُونما ہو سکتے ہیں وہ سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں۔

رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل کر رہو گے حتّٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے۔

57- تھوڑی قیمت سے مُراد وہ دُنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے۔

58- اِس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اہلِ عرب بالعمُوم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر وہسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رُعب بہت زیادہ تھا ۔ پھر ان کے علما اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رُعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کر دیا تھا۔ خصُوصیت کے ساتھ اہلِ مدینہ ان سے بے حد مرعوب تھے، کیانکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے ، رات دن کا ان سے میل جول تھا ، اور اس میل جول میں وہ ان سے اُسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک اَ ن پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ متمدّن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخّص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ ان حالات میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ اَ ن پڑھ عرب اہل ِ کتاب یہودیوں سے جا کر پُوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں ، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوّت کا دعویٰ لے کر اُٹھے ہیں، اِن کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ چنانچہ یہ سوال مکّے کے لوگوں نے بھی یہودیوں سے بارہا کیا، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہُودی علما کے پاس جا جا کر یہی بات پُوچھتے تھے۔ مگر ان علما ء نے کبھِی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں غلط ہے، یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ، اس میں کوئی غلطی ہے، یا وہ اخلاقی اُصول ، جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے کوئی چیز غلط ہے ۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ ؐ پیش کر رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ وہ نہ سچائی کی کھُلی کھُلی تردید کر سکتے تھے، نہ سیدھی طرح اس کو سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ، آپ ؐ کی جماعت کے خلاف، اور آپ ؐ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، کوئی الزام آپ ؐپر چسپاں کر دیتے تھے، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں ، اور طرح طرح کے اُلجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی اُلجھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے پیرؤوں کو بھی اُلجھا نے کی کوشش کریں۔ ان کا یہی رویّہ تھا، جس کی بنا پر ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چُھپانے کی کوشش نہ کرو، اور حق و باطل کوخلط ملط کر کے دُنیا کو دھوکا نہ دو۔

59- نماز اور زکوٰۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے۔ نماز با جماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی، اور زکوٰۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سُود کھانے لگے تھے۔

60- یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دُشواری محسُوس ہوتی ہے تو اس دُشواری کا علاج صبر اور نماز ہے، ان دوچیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہو جائے گی۔

صَبْر کے لُغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادے کی و ہ مضبُوطی ، عَزْم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ اِنضباط ہے ، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔ ارشاد ِ الہٰی کا مدّ عا یہ ہے کہ اس اخلاقی صِفَت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو۔

61- یعنی جو شخص خدا کا فرماں بردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو ، اس کے لیے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے ، جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کر سکتا۔ مگر جو برضا و رغبت خدا کے آگے سرِ اطاعت خم کر چکا ہو اور جسے یہ خیا ل ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے، اس کے لیے نماز ادا کرنا نہیں، بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے۔