Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 47-59

يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَاَنِّىۡ فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿2:47﴾ وَاتَّقُوۡا يَوۡمًا لَّا تَجۡزِىۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَيۡـئًـا وَّلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٌ وَّلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿2:48﴾ وَاِذۡ نَجَّيۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ يَسُوۡمُوۡنَكُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ يُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَكُمۡ وَيَسۡتَحۡيُوۡنَ نِسَآءَكُمۡ​ؕ وَفِىۡ ذٰلِكُمۡ بَلَاۤءٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ عَظِيۡمٌ‏ ﴿2:49﴾ وَاِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَيۡنٰکُمۡ وَاَغۡرَقۡنَآ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ‏ ﴿2:50﴾ وَاِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰٓى اَرۡبَعِيۡنَ لَيۡلَةً ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ وَاَنۡـتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿2:51﴾ ثُمَّ عَفَوۡنَا عَنۡكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿2:52﴾ وَاِذۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ وَالۡفُرۡقَانَ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ‏  ﴿2:53﴾ وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اِنَّكُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِكُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡآ اِلٰى بَارِئِكُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ عِنۡدَ بَارِئِكُمۡ ؕ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿2:54﴾ وَاِذۡ قُلۡتُمۡ يٰمُوۡسٰى لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَـكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهۡرَةً فَاَخَذَتۡكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ‏ ﴿2:55﴾ ثُمَّ بَعَثۡنٰكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِكُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏  ﴿2:56﴾ وَظَلَّلۡنَا عَلَيۡکُمُ الۡغَمَامَ وَاَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكُمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰى​ؕ كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ​ؕ وَمَا ظَلَمُوۡنَا وَلٰـكِنۡ كَانُوۡآ اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿2:57﴾ وَاِذۡ قُلۡنَا ادۡخُلُوۡا هٰذِهِ الۡقَرۡيَةَ فَکُلُوۡا مِنۡهَا حَيۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا وَّادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّةٌ نَّغۡفِرۡ لَـكُمۡ خَطٰيٰكُمۡ​ؕ وَسَنَزِيۡدُ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿2:58﴾ فَبَدَّلَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلاً غَيۡرَ الَّذِىۡ قِيۡلَ لَهُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوۡا يَفۡسُقُوۡنَ‏  ﴿2:59﴾

47 - اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اُس نعمت کو ، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی62 ۔ 48 - اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا ، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی ، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مِل سکے گی۔63 49 - 64یاد کرو وہ  وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں65 کی غلامی سے نجات بخشی ۔اُنہوں نے  تمہیں  سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا،تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی66 ۔ 50 - یاد کرو وہ وقت ، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا ،پھر اُس میں سے تمہیں بخیریت گزروادیا ، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔ 51 - یاد کرو ، جب ہم نے موسیٰ  ؑ   کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بُلایا، 67تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبُود بنا بیٹھے ۔68اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی ، 52 - مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔ 53 - یاد کرو  (ٹھیک اُس وقت جب تم یہ ظلم کررہے تھے)ہم نے موسیٰ  ؑ    کو کتاب اور فرقان69 عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو۔ 54 - یاد کرو جب موسیٰ   ؑ  (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اُس )نے اپنی قوم سے کہا کہ ”لوگو، تم نے بچھڑے کو معبُود بناکر اپنے اُوپر سخت ظلم کیا ہے ،لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضو ر توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو70 ، اسی میں تمہارے خالِق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔“ اُس وقت تمہارے خالِق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔ 55 - یاد کرو جب تم نے موسیٰ   ؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے ،جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علاینہ خدا کو (تم سے کلام کرتے )نہ دیکھ لیں۔اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آلیا۔ 56 - تم بے جان ہوکر گر چکے تھے ،مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اُٹھایا ، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاوٴ71۔ 57 - ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا72 ، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی73 اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنھیں کھاوٴ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا ،وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اُوپر ظلم کیا۔ 58 - پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ ”یہ بستی 74جو تمہارے سامنے ہےاس میں داخل ہو جاوٴاس کی پیداوار جس طرح چاہومزے سے کھاوٴمگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوےٴداخل ہونااور کہتے جانا حِطَّةٌ ، حِطَّةٌ،75 ہم تمہاری خطاوٴں سے درگزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔“ 59 - مگر جو بات کہی گئی تھی ، ظالموں نے اُسے بدل کرکچھ اور کر دیا۔آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پرآسمان سے عذاب نازل کیا ۔یہ سزا تھی اُن نافرمانیوں کی،جو وہ کر رہے تھے۔ ؏۶


Notes

62- یہ اُس دَور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دُنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علمِ حق تھا اور جسے اقوامِ عالم کا امام و رہنما بنا دیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگیِ ربّ کے راستے پر سب قوموں کو بُلائے اور چلائے۔

63- بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی۔ وہ اس قسم کے خیالاتِ خام میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں، بڑے بڑے اَولیا، صُلحا اور زُہاد سے نسبت رکھتے ہیں، ہماری بخشش تو اُنہیں بزرگوں کے صدقے میں ہو جائے گی، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پاسکتا ہے۔ اِنہیں جُھوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکّر میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی اِن غلط فہمیوں کو دُور کر دیاگیا ہے۔

64- یہاں سے بعد کے کئی رکوعوں تک مسلسل جن واقعات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں ، وہ سب بنی اسرائیل کی تاریخ کے مشہور ترین واقعات ہیں ، جنہیں اس قوم کا بچّہ بچّہ جانتا تھا۔ اسی لیے تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک ایک واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔ اس تاریخی بیان میں دراصل یہ دکھانا مقصُود ہے کہ ایک طرف یہ اور یہ احسانات ہیں جو خدا نے تم پر کیے، اور دُوسری طرف یہ اور یہ کرتُوت ہیں جو ان احسانات کے جواب میں تم کرتے رہے۔

65- ”اٰلِ فِرْعَو ْن“ کا ترجمہ ہم نے اس لفظ سے کیا ہے ۔ اس میں خاندانِ فراعنہ اور مصر کا حکمراں طبقہ دونوں شامل ہیں۔

66- آزمائش اس امر کی کہ اس بھٹّی سے تم خالص سونا بن کر نکلتے ہو یا نِری کھوٹ بن کر رہ جاتے ہو۔ اَور آزمائش اس امر کی کہ اتنی بڑی مصیبت سے اس معجزانہ طریقہ پر نجات پانے کے بعد بھی تم اللہ کے شکر گزار بندے بنتے ہو یا نہیں۔

67- مصر سے نجات پانے بے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نما ئے سینا میں پہنچ گئے، تو حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے چالیس شب و روز کے لےی کوہ ِ طور پر طلب فرمایا تاکہ وہاں اس قوم کے لیے، جواب آزاد ہو چکی تھی، قوانین شریعت اور عملی زندگی کی ہدایات عطا کی جائیں۔ ( ملاحظہ ہو بائیبل، کتابِ خروج ، باب ۲۴ تا ۳۱)

68- گائے اور بیل کی پرستش کا مرض بنی اسرائیل کی ہمسایہ اقوام میں ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مصر اور کَنْعان میں اس کا عام رواج تھا۔ حضرت یوسف ؑ کے بعد بنی اسرائیل جب انحطاط میں مبتلا ہوئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں کے غلام بن گئے تو انہوں نے جن جملہ اور امراض کے ایک یہ مرض بھی اپنے حکمرانوں سے لے لیا تھا۔ ( بچھڑے کی پرستش کا یہ واقعہ بائیبل کتابِ خروج ، باب۳۲ میں تفصیل کے ساتھ درج ہے)

69- فُرقَان: وہ چیز جس کے ذریعہ سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہو۔ اُردو میں اس کے مفہُوم سے قریب تر لفظ”کَسوَٹی“ ہے۔ یہاں فرقان سے مُراد دین کا وہ علم اور فہم ہے، جس سے آدمی حق اور باطل میں تمیز کرتا ہے۔

70- یعنی اپنے اُن آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گوسالے کو معبُود بنایا اور اس کی پرستش کی۔

71- یہ اشارہ جس واقعہ کی طرف ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس شبانہ روز کی قرار داد پر جب حضرت موسیٰ ؑ طُور پر تشریف لے گئے تھے، تو آپ ؑ کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستّر نمائندے بھی لے کر آئیں ۔ پھر جب اللہ تعالی ٰ نے موسیٰ ؑ کو کتاب اور فُرقان عطا کی، تو آپ نے اسے ان نمائندوں کے سامنے پیش کیا۔ اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ ان میں سے بعض شریر کہنے لگے کہ ہم محض تمہارے بیان پر کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوا ہے۔ اس پر اللہ تعالی ٰ کا غضب نازل ہوا اور اُنہیں سزا دی گئی ۔ لیکن بائیبل کہتی ہے کہ : ”انہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا۔ اس کے پا ؤ ں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبُوترا تھا ، جو آسمان کی مانند شفاف تھا۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے شُرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ سو انہوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا۔“(خرُوج، باب ۲۴ ۔ آیت ۱۱-۱۰)

لُطْف یہ ہے کہ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جلال دکھا دے، تو اُس نے فرمایا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا ۔( دیکھو خرُوج، باب ۳۳- آیت ۲۳-۱۸)

72- یعنی جزیرہ نمائے سینا میں جہاں دُھوپ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ تمہیں میسّر نہ تھی، ہم نے ابر سے تمہارے بچا ؤ کا انتظام کیا۔ اس موقع پر خیال رہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکل کر آئے تھے اور سینا کے علاقے میں مکانات کا تو کیا ذکر، سر چھُپانے کے لیے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے۔ اُس زمانے میں اگر خدا کی طرف سے ایک مدّت تک آسمان کو اَبر آلود نہ رکھا جاتا ، تو یہ قوم دُھوپ سے ہلاک ہو جاتی۔

73- مَنّ و سَلْویٰ وہ قدرتی غذائیں تھیں، جو اس مہاجرت کے زمانے میں اُن لوگوں کو چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں ۔ مَنّ دھنیے کے بیج جیسی ایک چیز تھی ، جو اُوس کی طرح گِرتی اور زمین پر جم جاتی تھی۔ اور سَلْویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے۔ خدا کے فضل سے ان کی اتنی کثرت تھی کہ ایک پُوری کی پُوری قوم محض انہی غذا ؤ ں پر زندگی بسر کرتی رہی اور اسے فاقہ کشی کی مصیبت نہ اُٹھانی پڑی، حالانکہ آج کسی نہایت متمدّن ملک میں بھی اگر چند لاکھ مہاجر یکایک آپڑیں، تو اُن کی خوراک کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے۔ ( مَنّ اور سَلْویٰ کی تفصیلی کیفیّت کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل ، کتاب خرُوج، باب ۱۶- گنتی، باب ۱۱، آیت ۹-۷ و ۳۲-۳۱ و یشوع ، باب ۵- آیت ۱۲)

74- یہ ابھی تک تحقیق نہیں ہو سکا ہے کہ اس بستی سے مُراد کونسی بستی ہے۔ جس سلسلہء واقعات میں یہ ذکر ہو رہا ہے وہ اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے ، جبکہ بنی اسرائیل ابھی جزیرہ نمائے سینا ہی میں تھے۔ لہٰذا اغلب یہ ہے کہ یہ اسی جزیرہ نما کا کوئی شہر ہو گا ۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اِس سے مُراد شِطّیم ہو، جو یَرِْیْحُو کے بالمقابل دریائے اُرْدُن کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس شہر کو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کے اخیر زمانے میں فتح کیا اور وہاں بڑی بدکاریاں کیں جن کے نتیجے میں خدا نے ان پر وبا بھیجی اور ۲۴ ہزار آدمی ہلاک کر دیے۔ ( گنتی-باب ۲۵، آیت ۸-۱)

75- یعنی حکم یہ تھا کہ جابر و ظالم فاتحوں کی طرح اَکڑتے ہوئے نہ گھُسنا، بلکہ خدا ترسوں کی طرح منکسرانہ شان سے داخل ہونا، جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے موقع پر مکّہ میں داخل ہوئے۔ اور حِطَّۃ ٌ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطا ؤ ں کی معافی مانگتے ہوئے جانا، دوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتلِ عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگذر اور عام معافی کا اعلان کرتے جانا۔