Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 60-61

وَاِذِ اسۡتَسۡقَىٰ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ فَقُلۡنَا اضۡرِب بِّعَصَاكَ الۡحَجَرَ​ؕ فَانۡفَجَرَتۡ مِنۡهُ اثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَيۡنًا​ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَهُمۡ​ؕ کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ اللّٰهِ وَلَا تَعۡثَوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏  ﴿2:60﴾ وَاِذۡ قُلۡتُمۡ يٰمُوۡسٰى لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِهَا وَقِثَّـآئِهَا وَفُوۡمِهَا وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا​ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِىۡ هُوَ اَدۡنٰى بِالَّذِىۡ هُوَ خَيۡرٌ​ؕ اِهۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَـکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ​ؕ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ وَالۡمَسۡکَنَةُ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ​ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقۡتُلُوۡنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ​ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّڪَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ‏ ﴿2:61﴾

60 - یاد کرو ، جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہاکہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو۔چنانچہ اُس سے بارہ چشمے پھوٹ76 نکلےاور ہر قبیلے نے جان لیاکہ کون سی جگہ اُس کے پانی لینے کی ہے۔اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہُوا  رزق کھاوٴ پیو،اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو ۔ 61 - یاد کرو ، جب تم نے کہا تھا کہ”اے موسیٰ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ اپنے ربّ سے دُعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ،ترکاری،گیہوں،لہسن،پیاز،دال وغیرہ پیدا کریں۔“ تو موسیٰ نے کہا”کیا ایک بہتر چیز کے بجائےتم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟اچھا77 ،کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہووہاں مل جائے گا۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات 78سےکفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔79 یہ نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سےنکل نکل جاتے تھے۔ ؏۷ 


Notes

76- وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی پر جھگڑا نہ ہو۔

77- یہ مطلب نہیں ہے کہ مَنّ و سلویٰ چھوڑ کر ، جو بے مشقّت مِل رہا ہے، وہ چیزیں مانگ رہے ہو، جِن کےلیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جارہی ہے ، اس کے مقابلےمیں کیا تم کو کام و دہن کی لذّت اتنی مرغوب ہے کہ اُس مقصد کے چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرُومی کچھ مدّت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے؟ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو گنتی، باب ۱۱، آیت ۹-۴)

78- آیات سے کفر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات میں سے جو بات اپنے خیالات یا خواہشات کے خلاف پائی ، اس کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ایک بات کو یہ جانتے ہوئے کہ خدا نے فرمائی ہے، پوری ڈھٹائی اور سرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی اور حکم ِ الہٰی کی کچھ پروا نہ کی۔ تیسرے یہ کہ ارشادِ الہٰی کے مطلب و مفہُوم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی خواہش کے مطابق اسے بدل ڈالا۔

79- “بنی اسرائیل نے اپنے اِس جُرم کو اپنی تاریخ میں خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم بائیبل سے چند واقعات یہاں نقل کرتے ہیں: (۱) حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں (یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل ) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغبر کو جیل بھیج دیا( ۲- تواریخ، باب ۱۷- آیت ۱۰-۷) (۲) حضرت الیاس (ایلیاہ Elliah ) علیہ السّلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پُھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا، حتّٰی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاس ؑ نے مانگی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ”بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں ، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔“(۱-سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱۰-۱) (۳) ایک اور نبی حضرت میکا یا ہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی سے جُرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (۱-سلاطین-باب ۲۲-آیت۲۷-۲۶) (۴) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بُت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریا ہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی، تو شاہ یہُوداہ یو آس کے حکم سے انہیں عین ہیکل ِ سلیمانی میں ”مَقْدِس“ اور ”قربان گاہ“ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا(۲- تواریخ، باب ۲۴-آیت ۲۱) (۵) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا ، تو ”یرمیاہ“ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اُٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جا ؤ ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی ، پیٹے گئے، قید کیے گئے، رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ (یرمیاہ،باب۱۵، آیت ۱۰- باب ۱۸، آیت ۲۳-۲۰- باب ۲۰، آیت ۱۸-۱- باب ۳۶ تا باب ۴۰) (۶) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے بُرے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جا ؤ اور باہر جا کر نبوت کرو(عاموس ، باب ۷- آیت ۱۳-۱۰) (۷) حضرت یحیٰی (یُوحنا) علیہ السّلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں ، تو پہلے وہ قید کیے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا۔ (مرقس، باب ۶، آیت ۲۹-۱۷) (۸) آخر میں حضرت عیسیٰ ؑ پر بنی اسرائیل کے علماء اور سردارانِ قوم کا غصّہ بھڑکا کیونکہ وہ انہیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے ۔ اس قصُور پر ان کے خلاف جھُوٹا مقدمہ تیار کیا گیا ، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رُومی حاکم پیلاطس نے یہُود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسُوع اور برابّا ڈاکو، دونوں میں سے کس کو رہا کروں، تو ان کے پُورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسُوع کو پھانسی پر لٹکا۔ ( متٰی، باب ۲۷- آیت ۲۶-۲۰)

یہ ہے اس قوم کی داستانِ جرائم کا ایک نہایت شرمناک باب جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنے فُسّاق و فُجّار کو سرداری و سربراہ کاری کے لیے اور اپنے صُلَحا و اَبْرار کو جیل اور دار کے لیے پسند کیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے لیے پسند نہ کرتا تو آخر اَور کیا کرتا۔