80- سلسلہء عبارت کو پیش ِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصُود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی۔ یہاں تو یہُود یوں کے اِس زعمِ باطل کی تردید مقصُود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دُوسرے انسانوں سے نہیں ہے، لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے ، وہ ایمان اور عملِ صالح کا ہے۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے ربّ سے اپنا اجر پائے گا۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسڑوں پر۔
81- اس واقعے کو قرآن میں مختلف مقامات پر جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو تی ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل میں یہ ایک مشہور و معرُوف واقعہ تھا۔ لیکن اب اس کی تفصیلی کیفیت معلوم کرنا مشکل ہے۔ بس مجملاً یوں سمجھنا چاہیے کہ پہاڑ کے دامن میں میثاق لیتے وقت ایسی خوفناک صُورتِ حال پیدا کر دی گئی تھی کہ ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا پہاڑ ان پر آپڑے گا۔ ایسا ہی کچھ نقشہ سُورہٴ اعراف آیت ۱۷۱ میں کھینچا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ اعراف، حاشیہ نمبر ۱۳۲)
82- سَبْت ، یعنی ہفتے کا دن ۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصُوص رکھیں۔ اس روز کسی قسم کا دُنیوی کام ، حتّٰی کہ کھانا پکانے کا کام بھی نہ خود کریں، نہ اپنے خادموں سے لیں۔ اس باب میں یہاں تک تاکیدی احکام تھے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حُرمت کو توڑے، وہ واجب القتل ہے(ملاحظہ ہو خُروج ، باب ۳۱ ، آیت ۱۷-۱۲)۔ لیکن جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و دینی انحطاط کا دَور آیا تو وہ علی الا علان سَبْت کی بے حرمتی کرنے لگے حتّٰی کہ اُن کے شہروں میں کُھلے بندوں سَبْت کے روز تجارت ہونے لگی۔
83- اس واقعے کی تفصیل آگے سُورہ اعراف رکوع ۲۱ میں آتی ہے۔ ان کے بندر بنائے جانے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جسمانی ہیئت بگاڑ کر بندروں کی سی کر دی گئی تھی اور بعض اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہو گئی تھیں۔ لیکن قرآن کے الفاظ اور اندازِ بیان سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔ میرے نزدیک قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے دماغ بعینہ اسی حال پر رہنے دیے گئے ہوں گے جس میں وہ پہلے تھے اور جسم مسخ ہو کر بندروں کے سے ہو گئے ہوں گے۔
84- چونکہ ان لوگوں کو اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گا ؤ پرستی کے مرض کی چُھوت لگ گئی تھی اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی کو معبُود نہیں سمجھتے، تو یہ عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے جس بُت کو معبُود سمجھتے رہے ہیں اُسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیں۔ یہ امتحان بہت کڑا امتحان تھا۔ دلوں میں پُوری طرح ایمان اُترا ہوا نہ تھا، اس لیے اُنہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پُوچھنے لگے۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پُوچھتے گئے اتنے ہی گھِرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر، جسے اس زمانے میں پرستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا، گویا اُنگلی رکھ کر بتا یا گیا کہ اِسے ذِبح کرو۔ بائیبل میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل نے اس حکم کو کس کس طرح ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ (ملاحظہ ہو گنتی ، باب ۱۹- آیت ۱۰-۱)