85- اِس مقام پر یہ بات تو بالکل صریح معلوم ہوتی ہے کہ مقتول کے اندر دوبارہ اتنی دیر کے لیے جان ڈالی گئی کہ وہ قاتل کا پتہ بتا دے۔ لیکن اس غرض کے لیے جو تدبیر بتائی گئی تھی، یعنی ”لاش کو اس کے ایک حصّے سے ضرب لگا ؤ ،“ اس کے الفاظ میں کچھ ابہام محسُوس ہوتا ہے۔ تا ہم اس کا قریب ترین مفہُوم وہی ہے جو قدیم مفسرین نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ اُوپر جس گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسی کے گوشت سے مقتول کی لاش پر ضرب لگانے کا حکم ہوا۔ اس طرح گویا بیک کرشمہ دوکار ہوئے۔ ایک یہ کہ اللہ کی قدرت کا ایک نشان انہیں دکھایا گیا۔ دُوسرے یہ کہ گائے کی عظمت و تقدیس اور اس کی معبُودیّت پر بھی ایک کاری ضرب لگی کہ اس نام نہاد معبُود کے پاس اگر کچھ بھی طاقت ہوتی، تو اسے ذبح کرنے سے ایک آفت برپا ہو جانی چاہیے تھی، نہ کہ اس کا ذبح ہونا اُلٹا مفید ثابت ہوتا۔
86- یہ خطاب مدینے کے اُن نَو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوّت ، کتاب، ملائکہ، آخرت ، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سُنی تھیں۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سُنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں ، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھا جائیں گے ۔ یہی معلومات تھیں جن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا چرچا سُن کر آپ ؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کُتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمتِ ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُر جوش نَو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مشتبہ معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اِس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہو جا ؤ گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سُن کو تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دینِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔
87- ”ایک گروہ“ سے مُراد ان کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔” کلام اللہ“ سے مُراد تورات ، زَبور اور وہ دُوسری کتابیں ہیں جو اِن لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔”تحریف “ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہُوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دُوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیّر و تبدّل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں۔۔۔۔ علما ء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلام الہٰی میں کی ہیں۔
88- یعنی وہ آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے تھے کہ تورات اور دیگر کتبِ آسمانی میں جو پیشین گوئیاں اِس نبی کے متعلق موجود ہیں ، یا جو آیات اور تعلیمات ہماری مقدّس کتابوں میں ایسی ملتی ہیں جن سے ہماری موجودہ روش پر گرفت ہو سکتی ہو، انہیں مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو، ورنہ یہ تمہارے ربّ کے سامنے ان کو تمہارے خلاف حُجّت کے طَور پر پیش کریں گے۔ یہ تھا اللہ کے متعلق ان ظالموں کے فسادِ عقیدہ کا حال۔ گویا وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اگر دُنیا میں وہ اپنی تحریفات اور اپنی حق پوشی کو چُھپالے گئے، تو آخرت میں ان پر مقدّمہ نہ چل سکے گا۔ اِسی لیے بعد کے جُملہء معترضہ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کو بے خبر سمجھتے ہو۔
89- )یہ ان کے عوام کا حال تھا۔ علمِ کتاب سے کورے تھے۔ کچھ نہ جانتے تھے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں دین کے کیا اُصُول بتائے ہیں، اخلاق اور شرع کے کیا قواعد سکھائے ہیں اور انسان کی فلاح و خُسران کا مدار کن چیزوں پر رکھا ہے۔ اس علم کے بغیر وہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھے بیٹھے تھے اور جھُوٹی توقّعات پر جی رہے تھے۔
90- یہ اُن کے علما کے متعلق ارشاد ہو رہا ہے ۔ ان لوگوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الہٰی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائیبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الہٰی کے ساتھ خلط ملط کر دیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفَسِّر کی تاویل، ہر مُتَکلِّم کا الہٰیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد ، جس نے مجمُوعہٴ کتبِ مقدّسہ (بائیبل) میں جگہ پالی، اللہ کا قَول(Word of God ) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہو گیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہو گئے۔
91- یہ یہودیوں کی عام غلط فہمی کا بیان ہے، جس میں ان کے عامی اور عالم سب مُبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ کریں ، بہرحال چونکہ ہم یہُودی ہیں ، لہٰذا جہنّم کی آگ ہم پر حرام ہے اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی، تو بس چند روز کے لیے وہاں بھیجے جائیں گے اور پھر سیدھے جنّت کی طرف پلٹا دیے جائیں گے۔