Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 8-20

وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَمَا هُمۡ بِمُؤۡمِنِيۡنَ​ۘ‏ ﴿2:8﴾ يُخٰدِعُوۡنَ اللّٰهَ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ​ۚ وَمَا يَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَؕ‏ ﴿2:9﴾ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ​ۚ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢبِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿2:10﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ‏ ﴿2:11﴾ اَلَا ۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰـكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿2:12﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ​ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰـكِنۡ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:13﴾ وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏  ﴿2:14﴾ اَللّٰهُ يَسۡتَهۡزِئُ بِهِمۡ وَيَمُدُّهُمۡ فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏  ﴿2:15﴾ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالۡهُدٰى فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُهُمۡ وَمَا كَانُوۡا مُهۡتَدِيۡنَ‏ ﴿2:16﴾ مَثَلُهُمۡ كَمَثَلِ الَّذِى اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ​ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوۡرِهِمۡ وَتَرَكَهُمۡ فِىۡ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبۡصِرُوۡنَ‏  ﴿2:17﴾ صُمٌّۢ بُكۡمٌ عُمۡىٌ فَهُمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ ۙ‏ ﴿2:18﴾ اَوۡ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيۡهِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعۡدٌ وَّبَرۡقٌ​ ۚ يَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَهُمۡ فِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ​ؕ وَاللّٰهُ مُحِيۡطٌ​ۢ بِالۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿2:19﴾ يَكَادُ الۡبَرۡقُ يَخۡطَفُ اَبۡصَارَهُمۡ​ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمۡ مَّشَوۡا فِيۡهِۙ وَاِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَيۡهِمۡ قَامُوۡا​ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمۡعِهِمۡ وَاَبۡصَارِهِمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿2:20﴾

8 - بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں،حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ 9 - وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں،مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعُورنہیں ہے11۔ 10 - ان کے دلوں میں ایک بیماری ہےجسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا12دیا،اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں،اس کی پاداش میں ان کے لئے درد ناک سزا ہے۔ 11 - جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو اُنہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ 12 - خبردار!حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعُور نہیں ہے۔ 13 - اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اُسی طرح تم بھی ایمان 13لاوٴ تو انہوں نے یہی جواب دیا کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان 14لائیں؟ خبردار ! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں،مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔ 14 - جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، اور جب  علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں15 سے ملتے ہیں،تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمھارے ساتھ ہیں اور اُن لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں۔ 15 - اللہ ان سے مذاق کررہا ہے ،وہ ان کی رسّی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ 16 - یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بد لے گمراہی خریدلی ہے، مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہر گز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ 17 - ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نورِبصارت سلب کرلیااور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں  کچھ نظر نہیں آتا۔ 16 18 - یہ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے17 ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ 19 - یا پھر ان کی مثال یوںسمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سُن کر اپنی جانوں کے خوف سے  کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔18 20 - چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسُوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دُور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔19 اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی  سَلب کر لیتا، 20یقینًا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ؏۲


Notes

11- یعنی وہ اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مُبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہوگی، حالانکہ دراصل یہ ان کو دُنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا ۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہتی۔ رہی آخرت، تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو۔

12- بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں۔

13- یعنی جس طرح تمہاری قوم کے دُوسرے لوگ سچائی اور خلوص کے ساتھ مسلمان ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی اگر اسلام قبول کرتے ہو تو ایمانداری کے ساتھ سچے دل سے قبول کرو۔

14- وہ اپنے نزدیک ان لوگوں کو بے وقوف سمجھتے تھے جو سچائی کے ساتھ اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو تکلیفوں اور مشقّتوں اور خطرات میں مُبتلا کر رہے تھے۔ ان کی رائے میں یہ سراسر احمقانہ فعل تھا کہ محض حق اور راستی کی خاطر تمام ملک کی دُشمنی مول لے لی جائے۔ ان کے خیال میں عقل مندی یہ تھی کہ آدمی حق اور باطل کی بحث میں نہ پڑے، بلکہ ہر معاملے میں صرف اپنے مفاد کو دیکھے۔

15- شیطان عربی زبان میں سرکش ، متمرّد اور شوریدہ سر کو کہتے ہیں۔ انسان اور جِنّ دونوں کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ اگر چہ قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر شیاطین جِنّ کے لیے آیا ہے ، لیکن بعض مقامات پر شیطان صفت انسانوں کے لیے بھی یہ استعمال کیا گیا ہے اور سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جا تا ہے کہ کہاں شیطان سے انسان مُراد ہیں اور کہاں جِنّ۔ اِس مقام پر شیاطین کا لفظ اُن بڑے بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے ، جو اس وقت اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔

16- مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے ، صحیح کو غلط سے، راہِ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا ، تو جو لوگ دیدہ ٴ بینا رکھتے تھے، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں، مگر یہ منافق ، جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے ، ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔” اللہ نے نورِ بصارت سلب کر لیا“ کے الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے تاریکی میں بھٹکنے کی ذمہ داری خود ان پر نہیں ہے۔ اللہ نورِ بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے ، جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے، خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ جب اُنہوں نے نورِ حق سے منہ پھیر کر ظلمتِ باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی۔

17- حق بات سُننے کے لیے بہرے ، حق گوئی کے لیے گونگے، حق بینی کے لیے اندھے۔

18- یعنی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے۔

19- پہلی مثال اُن منافقین کی تھی جو دل میں قطعی منکر تھے اور کسی غرض و مصلحت سے مسلمان بن گئے تھے۔ اور یہ دُوسری مثال اُن کی ہے جو شک اور تذبذب اور ضعفِ ایمان میں مبتلا تھے، کچھ حق کے قائل بھی تھے، مگر ایسی حق پرستی کے قائل نہ تھے کہ اس کی خاطر تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی برداشت کر جائیں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مُراد مشکلات و مصائب کا وہ، ہُجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریکِ اسلامی کے مقابلہ میں اہل جاہلیّت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آرہا تھا۔ مثال کے آخری حِصّہ میں ان منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے تو یہ چل پڑتے ہیں ، اور جب مشکلات کے دَلْ بادَل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خواہشاتِ نفس اور ان کے تعصّباتِ جاہلیت پر ضرب پڑتی ہے ، تو ٹھٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

20- یعنی جس طرح پہلی قسم کے منافقین کا نورِ بصیرت اس نے بالکل سَلب کر لیا، اسی طرح اللہ ان کو بھی حق کے لیے اندھا بہرا بنا سکتا تھا۔ مگر اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ جو کسی حد تک دیکھنا اور سُننا چاہتا ہو، اسے اُتنا بھی نہ دیکھنے سُننے دے۔ جس قدر حق دیکھنے اور حق سُننے کے لیے یہ تیار تھے، اسی قدر سماعت و بصارت اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔