93- ” رُوحِ پاک“ سے مُراد علمِ وحی بھی ہے، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح ؑ کی اپنی پاکیزہ رُوح بھی ، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا۔ ”روشن نشانیوں“ سے مُراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالب ِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں۔
94- یعنی ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمہاری بات کا اثر نہ ہو گا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلّط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبُوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کر دیا جائے۔
95- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یہُودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دَور شروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شا ہد تھے کہ بعشتِ محمدی ؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہُودی آنے والے نبی کی اُمّید پر جِیا کر تے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ ء کلام یہی تھا کہ” اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کر لے ، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔“ اہلِ مدینہ یہ باتیں سُنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا ، کہیں یہ یہُودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہُودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔
اور یہ جو فرمایا کہ” وہ اس کو پہچان بھی گئے“، تو اس کے متعدّد ثبوت اُسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت اُمّ المومنین حضرت صَفِیّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہُودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ ؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے ، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سُنا:
چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟
والد: خدا کی قسم ، ہاں۔
چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟
والد: ہاں۔
چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟
والد: جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔
( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)
96- اِس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ” کیسی بُری چیز ہے، جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔“ یعنی فلاح و سعادت اور اپنی نجات کو قربان کر دیا۔
97- یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والانبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنےفضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے۔
98- یہ ایک تعریض اور نہایت لطیف تعریض ہے اُن کی دُنیا پرستی پر ۔ جن لوگوں کو واقعی دارِ آخرت سے کوئی لگا ؤ ہوتا ہے، وہ دُنیا پر مَرے نہیں جاتے اور نہ موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر یہُودیوں کا حال اس کے برعکس تھا اور ہے۔
99- اصل میں عَلیٰ حَیٰو ۃٍ کا لفظ ارشاد ہوا ہے، جس کے معنی ہیں کسی نہ کسی طرح کی زندگی ۔ یعنی انہیں محض زندگی کی حرص ہے، خواہ وہ کسی طرح کی زندگی ہو، عزّت اور شرافت کی ہو یا ذلّت اور کمینہ پن کی۔