Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 87-96

وَ لَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِهٖ بِالرُّسُلِ​ وَاٰتَيۡنَا عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ الۡبَيِّنٰتِ وَاَيَّدۡنٰهُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ​ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَهۡوٰٓى اَنۡفُسُكُمُ اسۡتَكۡبَرۡتُمۡ​ۚ فَفَرِيۡقًا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ‏ ﴿2:87﴾ وَقَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ​ؕ بَل لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفۡرِهِمۡ فَقَلِيۡلًا مَّا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿2:88﴾ وَلَمَّا جَآءَهُمۡ كِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمۡۙ وَكَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَى الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا  ​ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِهٖ​ فَلَعۡنَةُ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ‏  ﴿2:89﴾ بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪۡفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بَغۡيًا اَنۡ يُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ​ۚ فَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ​ؕ وَلِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‏  ﴿2:90﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ قَالُوۡا نُؤۡمِنُ بِمَآ اُنۡزِلَ عَلَيۡنَا وَيَكۡفُرُوۡنَ بِمَا وَرَآءَهٗ وَهُوَ الۡحَـقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمۡ​ؕ قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡـۢبِيَآءَ اللّٰهِ مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2:91﴾ وَلَقَدۡ جَآءَکُمۡ مُّوۡسٰى بِالۡبَيِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ وَاَنۡـتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿2:92﴾ وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِيۡثَاقَكُمۡ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَآ اٰتَيۡنٰکُمۡ بِقُوَّةٍ وَّاسۡمَعُوۡا ​ ؕ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَعَصَيۡنَا  وَاُشۡرِبُوۡا فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡعِجۡلَ بِکُفۡرِهِمۡ ​ؕ قُلۡ بِئۡسَمَا يَاۡمُرُکُمۡ بِهٖۤ اِيۡمَانُكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2:93﴾ قُلۡ اِنۡ كَانَتۡ لَـکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَةُ عِنۡدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿2:94﴾ وَ لَنۡ يَّتَمَنَّوۡهُ اَبَدًاۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿2:95﴾ وَلَتَجِدَنَّهُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَيٰوةٍ  ۛۚ وَ مِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا​​  ۛۚ يَوَدُّ اَحَدُهُمۡ لَوۡ يُعَمَّرُ اَ لۡفَ سَنَةٍ ۚ وَمَا هُوَ بِمُزَحۡزِحِهٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ يُّعَمَّرَ​ؕ وَاللّٰهُ بَصِيۡرٌۢ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ ‏ ﴿2:96﴾

87 - ہم نے موسیٰ  ؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسُول بھیجے، آخر کار عیسٰی  ابنِ مر یم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور رُوحِ  پاک سے اس کی مدد کی۔93 پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسُول  تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سر کشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا! 88 - وُہ کہتے ہیں، تمارے دل محفوظ ہیں ۔نہیں94 ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ 89 - اور اب جوایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟  باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔95 خدا کی لعنت ان منکرین  پر ، 90 - کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں96 کہ جو ہدایت  اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے  صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل ( وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا!97 لہٰذا اب یہ غضب با لا ئے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کیلئےسخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔ 91 - جب ان سے کہا جاتا ہےکہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہےاس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں ”ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتےہیں ، جو ہمارے ہاں (یعنی نسل ِ اسرائیل میں )اُتری ہے۔“اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے ، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہےجو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا،ان سے کہو : اگر تم اس تعلیم ہی پر  ایمان رکھنے والے ہوجو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کےان پیغمروں کو (جو خود بنی اسرئیل میں پیدا ہوئے تھے) کیوں قتل کرتے رہے؟ 92 - تمہارے پاس موسیٰؑ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبُود بنا  بیٹھے۔ 93 - پھر ذرا اُس میثاق کو یاد کرو، جو طور کو تمھارے اُوپر اٹھاکر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگاکر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سُن لیا، مگر مانیں گے نہیں۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوٴا تھا۔ کہو : اگر تم مومن ہو ، تو یہ عجیب ایمان ہے ، جو ایسی بُری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔ 94 - اِن سے کہو اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصُوص ہے ،تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنّا کرو 98، اگر تم اس خیال میں سچےّ ہو۔ 95 - یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنّا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کماکر انھوں نے وہاں بھیجا ہے،اس کا اقتضایہی ہے (کہ وہاں جانے کی تمنّا نہ کریں) اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ 96 - تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص99 پاوٴ گے حتّٰی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا  ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے ، حالانکہ لمبی عمر بہر حال اُسے عذاب سے تودُور نہیں پھینک سکتی ۔ جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے ۔  ؏۱۱


Notes

93- ” رُوحِ پاک“ سے مُراد علمِ وحی بھی ہے، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح ؑ کی اپنی پاکیزہ رُوح بھی ، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا۔ ”روشن نشانیوں“ سے مُراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالب ِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں۔

94- یعنی ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمہاری بات کا اثر نہ ہو گا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلّط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبُوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کر دیا جائے۔

95- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یہُودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دَور شروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شا ہد تھے کہ بعشتِ محمدی ؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہُودی آنے والے نبی کی اُمّید پر جِیا کر تے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ ء کلام یہی تھا کہ” اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کر لے ، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔“ اہلِ مدینہ یہ باتیں سُنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا ، کہیں یہ یہُودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہُودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔ اور یہ جو فرمایا کہ” وہ اس کو پہچان بھی گئے“، تو اس کے متعدّد ثبوت اُسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت اُمّ المومنین حضرت صَفِیّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہُودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ ؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے ، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سُنا: چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم ، ہاں۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔

( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)

96- اِس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ” کیسی بُری چیز ہے، جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔“ یعنی فلاح و سعادت اور اپنی نجات کو قربان کر دیا۔

97- یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والانبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنےفضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے۔

98- یہ ایک تعریض اور نہایت لطیف تعریض ہے اُن کی دُنیا پرستی پر ۔ جن لوگوں کو واقعی دارِ آخرت سے کوئی لگا ؤ ہوتا ہے، وہ دُنیا پر مَرے نہیں جاتے اور نہ موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر یہُودیوں کا حال اس کے برعکس تھا اور ہے۔

99- اصل میں عَلیٰ حَیٰو ۃٍ کا لفظ ارشاد ہوا ہے، جس کے معنی ہیں کسی نہ کسی طرح کی زندگی ۔ یعنی انہیں محض زندگی کی حرص ہے، خواہ وہ کسی طرح کی زندگی ہو، عزّت اور شرافت کی ہو یا ذلّت اور کمینہ پن کی۔