Tafheem ul Quran

Surah 2 Al-Baqarah, Ayat 97-103

قُلۡ مَنۡ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِيۡلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَهُدًى وَّبُشۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿2:97﴾ مَنۡ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰٓـئِکَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَجِبۡرِيۡلَ وَمِيۡكٰٮلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿2:98﴾ وَلَقَدۡ اَنۡزَلۡنَآ اِلَيۡكَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ​​ۚ وَمَا يَكۡفُرُ بِهَآ اِلَّا الۡفٰسِقُوۡنَ‏ ﴿2:99﴾ اَوَکُلَّمَا عٰهَدُوۡا عَهۡدًا نَّبَذَهٗ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ​ؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿2:100﴾ وَلَمَّا جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمۡ نَبَذَ فَرِيۡقٌ مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَۙ کِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوۡرِهِمۡ كَاَنَّهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:101﴾ وَاتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّيٰطِيۡنُ عَلٰى مُلۡكِ سُلَيۡمٰنَ​​ۚ وَمَا کَفَرَ سُلَيۡمٰنُ وَلٰـكِنَّ الشَّيٰـطِيۡنَ كَفَرُوۡا يُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ وَمَآ اُنۡزِلَ عَلَى الۡمَلَـکَيۡنِ بِبَابِلَ هَارُوۡتَ وَمَارُوۡتَ​ؕ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَةٌ فَلَا تَكۡفُرۡؕ​ فَيَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡهُمَا مَا يُفَرِّقُوۡنَ بِهٖ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِهٖ​ؕ وَمَا هُمۡ بِضَآرِّيۡنَ بِهٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ؕ وَيَتَعَلَّمُوۡنَ مَا يَضُرُّهُمۡ وَلَا يَنۡفَعُهُمۡ​ؕ وَلَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰٮهُ مَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ خَلَاقٍ​ؕ وَلَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ​ؕ لَوۡ کَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿2:102﴾ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَةٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ خَيۡرٌ ؕ​ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿2:103﴾

97 - ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت  رکھتا ہو 100، اسے معلوم ہو نا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے101، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق  و تائید کرتا ہے102اور ایمان لانے والوں کے لیےہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔103 98 - (اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے، تو کہہ دو کہ)جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں  اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں ، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ 99 - ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں ۔ اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں ۔ 100 - کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے ۔ 101 - اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کو ئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا  آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجو د تھی ، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس ِ پشت ڈالا ، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ 102 - اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے ، جو شیاطین  سلیمان ؑ  کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے104، حالانکہ سلیمان ؑ  نے کبھی کفر نہیں کیا  ، کفر کے مرتکب  تو وہ شیا طین تھے جو لوگو ں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔  اور پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ، ھاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی ، حالانکہ وہ (فرشتے)جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے ، تو پہلے صاف طور پر متنبہّ  کر دیا کرتے تھے کہ ”دیکھ ، ہم محض ایک آزمائش ہیں ، تُوکفر میں مبتلا نہ ہو105 “ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے  جس سے شوہر اور بیوی میں جُدائی ڈال دیں106 ۔ ظاہر تھا کہ اذن ِ الٰہی  کہ بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے ، مگر اس کے با وجو د وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں ، بلکہ نقصان دہ تھی اور انھیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا ، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔  کتنی بُری متاع تھی جس کے بدلہ انھوں  نے اپنی جا نوں کو بیچ ڈالا، کاش انھیں معلوم ہو تا! 103 - اگر وہ ایمان اور تقوٰی اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا ، وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا کاش انہیں کو ئی خبر ہوتی  !؏ ۱۲


Notes

100- یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں، عذاب کا فرشتہ ہے۔

101- یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں۔

102- مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی۔

103- اِ س میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے۔ تم لڑ رہے ہو اُس صحیح رہنمائی کے خلاف ، جسے اگر سیدھی طرح مان لو، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو۔

104- شیاطین سے مراد شیاطینِ جِنّ اور شیاطینِ اِنس دونوں ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ جب بنی اسرائیل پر اخلاقی ہ مادّی انحطاط کا دَور آیا اور غلامی، جہالت، نَکبَت و اِفلاس اور ذِلَّت و پستی نے ان کے اندر کوئی بلند حوصلگی و اُولواالعزمی نہ چھوڑی، تو ان کی توجہّات جادُو ٹونے اور طلسمات و ”عملیات“ اور تعویذ گنڈوں کی طرف مبذول ہونے لگیں۔وہ تو ایسی تدبیریں ڈھونڈنے لگے، جن سے کسی مشَقّت اور جدّوجہد کے بغیر محض پُھونکوں اور منتروں کے زور پر سارے کام بن جایا کریں۔ اس وقت شیاطین نے ان کو بہکانا شروع کیا کہ سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی حیرت انگیز طاقتیں تو سب کچھ چند نقوش اور منتروں کا نتیجہ تھیں، اور وہ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اِن چیزوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر نہ کتاب اللہ سے ان کو کوئی دلچسپی رہی اور نہ کسی داعی حق کی آواز انہوں نے سُن کردی۔

105- اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں، مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پُوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہوگا۔ جس طرح قومِ لُوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے، اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازارِ ساحری میں اپنی دکان لگائی ہوگی اور دُوسری طرف وہ اتمامِ حُجَّت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کردیتے ہوں گے کہ دیکھو، ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں، تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش اور تعویذات پر ٹوٹے پڑتے ہوں گے۔

فرشتوں کے انسانی شکل میں آکر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صُورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کرسکتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے کردوپیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آکر کام کرجاتے ہوں گے۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سِکھانا جو بجاے خود بُری تھی، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ لے جاکر رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالتِ ارتکابِ جُرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔

106- مطلب یہ ہے کہ اس منڈی میں سب سے زیادہ جس چیز کی مانگ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی ایسا عمل یا تعویذ مِل جائے جس سے ایک آدمی دُوسرے کی بیوی کو اس سے توڑ کر اپنے اوپر عاشق کر لے۔ یہ اخلاقی زوال کا وہ انتہائی درجہ تھا، جس میں وہ لوگ مبتلا ہو چکے تھے۔ پست اخلاقی کا اس سے زیادہ نیچا مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کے افراد کا سب سے زیادہ دلچسپ مشغلہ پرائی عورتوں سے آنکھ لڑانا ہو جائے اور کسی منکوحہ عورت کو اس کے شوہر سے توڑ کر اپنا کر لینے کو وہ اپنی سب سے بڑی فتح سمجھنے لگیں۔

ازدواجی تعلق در حقیقت انسانی تمدّن کی جڑ ہے۔ عورت اور مرد کے تعلق کی درستی پر پورے انسانی تمدّن کی درستی کا اور اس کی خرابی پر پورے انسانی تمدّن کی خرابی کا مدا ر ہے۔ لہٰذا وہ شخص بدترین مُفْسِد ہے جو اُس درخت کی جڑ پر تیشہ چلاتا ہو جس کے قیام پر خود اُس کا اور پوری سوسائٹی کا قیام منحصر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے ۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آکر اپنی اپنی کارروائیاں سُناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں شر کھڑا کیا۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تُو نے کچھ نہ کیا۔ پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں ایک عورت اور اس کے شوہر میں جُدائی ڈال آیا ہوں۔ یہ سُن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تُو کام کر کے آیا ہے۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کو جو فرشتے بھیجے گئے تھے، انہیں کیوں حکم دیا گیا کہ عورت اور مرد کے درمیان جدائی ڈالنے کا ”عمل“ ان کے سامنے پیش کریں۔ دراصل یہی ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے ان کے اخلاقی زوال کو ٹھیک ٹھیک ناپا جا سکتا تھا۔