Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 1-24

طٰهٰ​ ۚ‏ ﴿20:1﴾ مَاۤ اَنۡزَلۡـنَا عَلَيۡكَ الۡـقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰٓى ۙ‏ ﴿20:2﴾ اِلَّا تَذۡكِرَةً لِّمَنۡ يَّخۡشٰى ۙ‏ ﴿20:3﴾ تَنۡزِيۡلًا مِّمَّنۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ وَالسَّمٰوٰتِ الۡعُلَى ؕ‏ ﴿20:4﴾ اَلرَّحۡمٰنُ عَلَى الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰى‏ ﴿20:5﴾ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا وَمَا تَحۡتَ الثَّرٰى‏ ﴿20:6﴾ وَاِنۡ تَجۡهَرۡ بِالۡقَوۡلِ فَاِنَّهٗ يَعۡلَمُ السِّرَّ وَاَخۡفٰى‏ ﴿20:7﴾ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ​ؕ لَـهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى‏ ﴿20:8﴾ ​وَهَلۡ اَتٰٮكَ حَدِيۡثُ مُوۡسٰى​ۘ‏ ﴿20:9﴾ اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡۤا اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى‏ ﴿20:10﴾ فَلَمَّاۤ اَتٰٮهَا نُوۡدِىَ يٰمُوۡسٰىؕ‏ ﴿20:11﴾ اِنِّىۡۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخۡلَعۡ نَـعۡلَيۡكَ​ۚ اِنَّكَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًىؕ‏ ﴿20:12﴾ وَاَنَا اخۡتَرۡتُكَ فَاسۡتَمِعۡ لِمَا يُوۡحٰى‏ ﴿20:13﴾ اِنَّنِىۡۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِىۡ ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكۡرِىۡ‏ ﴿20:14﴾ اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَـةٌ اَكَادُ اُخۡفِيۡهَا لِتُجۡزٰى كُلُّ نَفۡسٍۢ بِمَا تَسۡعٰى‏ ﴿20:15﴾ فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنۡهَا مَنۡ لَّا يُؤۡمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوٰٮهُ فَتَرۡدٰى‏  ﴿20:16﴾ وَمَا تِلۡكَ بِيَمِيۡنِكَ يٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:17﴾ قَالَ هِىَ عَصَاىَ​ۚ اَتَوَكَّؤُا عَلَيۡهَا وَاَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَـنَمِىۡ وَلِىَ فِيۡهَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰى‏ ﴿20:18﴾ قَالَ اَلۡقِهَا يٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:19﴾ فَاَلۡقٰٮهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسۡعٰى‏ ﴿20:20﴾ قَالَ خُذۡهَا وَلَا تَخَفۡ​ سَنُعِيۡدُهَا سِيۡرَتَهَا الۡاُوۡلٰى‏ ﴿20:21﴾ وَاضۡمُمۡ يَدَكَ اِلَىٰ جَنَاحِكَ تَخۡرُجۡ بَيۡضَآءَ مِنۡ غَيۡرِ سُوۡٓءٍ اٰيَةً اُخۡرٰىۙ‏ ﴿20:22﴾ لِنُرِيَكَ مِنۡ اٰيٰتِنَا الۡـكُبۡـرٰى​ۚ‏ ﴿20:23﴾ اِذۡهَبۡ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ اِنَّهٗ طَغٰى‏ ﴿20:24﴾

1 - طٰہٰ، 2 - ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاوٴ۔ 3 - یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔ 1 4 - نازل کیا گیا اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ 5 - وہ رحمٰن( کائنات کے)تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ 2 6 - مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں۔ 7 - تم چاہے اپنی بات پُکار کر کہو ، وہ تو چُپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی بات بھی جانتا ہے۔ 3 8 - وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدانہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ 4 9 - اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟ 10 - جب کہ اُس نے ایک آگ دیکھی 5 اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ”ذرا ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آوٴں، یا اس آگ پر مجھے(راستے کے متعلق)کوئی رہنمائی مِل جائے۔“ 6 11 - وہاں پہنچا تو پکارا گیا”اے موسیٰؑ، 12 - میں ہی تیرا ربّ ہوں، جُوتیاں اُتار دے۔ 7 تُو وادیِ مقدس طُویٰ میں ہے۔ 8 13 - اور میں نے تُجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ 14 - میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، پس تُو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ 9 15 - قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاک ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ 10 16 - پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تُجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ، ورنہ تُو ہلاکت میں پڑ جائے گا 17 - ۔۔۔۔ اور اے موسیٰؑ ، یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟“ 11 18 - موسیٰؑ نے جواب دیا”یہ میری لاٹھی ہے، اِس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اِس سے اپنی بکریوں کے لیے پتّے جھاڑتا ہوں، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اِس سے لیتا ہوں۔“ 12 19 - فرمایا”پھینک دے اِس کو موسیٰؑ ۔“ 20 - اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ 21 - فرمایا ”پکڑ لے اِس کو اور ڈر نہیں، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ 22 - اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ 13 یہ دُوسری نشانی ہے۔ 23 - اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ 24 - اب تُو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے۔“ ؏۱


Notes

1. یہ فقرہ پہلے فقرے کے مفہوم پر خود روشنی ڈالتا ہے۔ دونوں کو ملا کر پڑھنے سے صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کو نازل کر کے ہم کوئی اَن ہونا کام تم سے نہیں لینا چاہتے ۔ تمہارے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے اُن کو منوا کر چھوڑ و اور جن کے دل ایمان کے لیے بند ہو چکے ہیں ان کے اندر ایمان اتار کر ہی رہو۔ یہ تو بس ایک تذکیر اور یاددہانی ہے اور اس لیے بھیجی گئی ہے کہ جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو وہ اسے سُن کر ہوش میں آجائے۔ اب اگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں خدا کا کچھ خوف نہیں ، اور جنہیں اس کی کچھ پروا نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ان کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ۔

2. یعنی پیدا کرنے کے بعد کہیں جا کر سو نہیں گیا بلکہ آپ اپنے کارخانۂ تخلیق کا سارا انتظام چلا رہا ہے ، خود اس ناپیدا کنار سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے، خالق ہی نہیں ہے بالفعل حکمراں بھی ہے۔

3. یعنی کچھ ضروری نہیں ہے کہ جو ظلم و ستم تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر ہو رہا ہے اور جن شرارتوں اور خباثتوں سے تمہیں نیچا دکھا نے کی کوششیں کی جارہی ہیں ان پر تم بآوازِ بلند ہی فریاد کرو۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم پر کیا کیفیت گزر رہی ہے ۔ وہ تمہارےدلوں کی پکار تک سُن رہا ہے۔

4. یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔

5. یہ اُس وقت کا قصّہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مَدْیَن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو (جن سے مَدْیَن ہی میں شادی ہوئی تھی) لے کر مصر کی طرف واپس جارہے تھے۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورۂ قَصص میں بیان ہوئی ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مَدْیَنْ میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔

6. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا زمانہ تھا۔ حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے سے گزر رہے تھے۔ دور سے ایک آگ دیکھ کر انہوں نے خیال کیا یا تو وہاں سے تھوڑی سی آگ مل جائے گی تاکہ بال بچوں کو رات بھر گرم رکھنے کا بندوبست ہو جائے، یا کم از کم وہاں سے یہ پتہ چل جائے گا کہ آگے راستہ کدھر ہے۔ خیال کیا تھا دنیا کا راستہ ملنے کا ، اور وہاں مل گیا عقبیٰ کا راستہ۔

7. غالبًا اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا خالفو ا الیھود فانھم لا یُصَلّون فی نعا لہم ولا خفا فہم، ”یہودیوں کے خلاف عمل کرو۔کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے“(ابو داؤد)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے، اس لیے دونوں طرح عمل کرو۔ ابوداؤد میں عَمْرو ؓ بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ مُسند احمد اور ابوداؤد میں ابو سعید خُدرِی ؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا” جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جُوتے کو پلٹ کر دیکھ لے۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کرلے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ “ ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں حضور ؐ کے یہ الفاظ ہیں”اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہوتو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے “۔ اور حضرت اُمِ سَلَمہؓ کی روایت میں ہے: یطھر ہ مابعد ہٗ ، یعنی ”ایک جگہ گندگی لگی ہوگی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی “۔ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف، امام اَوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جو تا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پا ک ہو جاتا ہے۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اِس کے خلاف ہے۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں، اگر چہ سمجھا یہی گیا ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑ نے سے پاک نہیں ہوتا۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسجد نبوی میں چٹائی تک کا فرش نہ تھا، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہوگا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ پڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں ، وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں)۔

8. عام خیال یہ ہے کہ”طُویٰ“ اس وادی کا نام تھا۔ مگر بعض مفسرین نے ”وادی مقدس طُویٰ“ کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ”وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے“۔

9. یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہو جائے، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اُس کو اِس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں، آزاد خود مختار نہیں ہوں۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔

بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ نماز قائم کرتا کہ میں تجھے یاد کروں، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا فَا ذْ کُرُوْ نِیْ اَذْکُرْکُمْ ”مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا“۔

ضمنًا اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص کو بھُول لاحق ہو جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کر لینی چاہیے۔ حدیث میں حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا من نسی صَلاۃ فلیصلّھا اذ اذکر ھا لا کفارۃ لھا الا ذٰلک، ”جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کرلے ، اِس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے“(بخاری ، مسلم ، احمد)۔ اسی معنی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے جسے مسلم، ابوداؤد اور نَسائی وغیرہ نے لیا ہے۔ اور ابو قَتَادَہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا کہ اگر ہم نماز کے وقت سوگئے ہوں تو کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا ”نیند میں کچھ قصور نہیں ، قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے ۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے تو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے ، نماز پڑھ لے“ (ترمذی، نسائی ، ابوداؤد)۔

10. توحید کےبعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیہم السّلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے، آخرت ہے۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساعتِ منتظرہ اِس لیے آئے گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ آخرت میں پائے۔ اور اس کے وقت کو مخفی بھی اس لیے رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدّعا پورا ہو سکے۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت اِس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے ۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہے وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں آتی۔

11. یہ سوال طلبِ علم کے لیے نہ تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ ؑ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ پوچھنے سے مقصُود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ ؑ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔

12. اگرچہ جواب میں صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ حضور ، یہ لاٹھی ہے ، مگر حضرت موسیٰ ؑ نے اس سوال کا جو لمبا جواب دیا وہ ان کی اُس وقت کی قلبی کیفیت کا ایک دلچسپ نقشہ پیش کرتا ہے ۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب آدمی کو کسی بہت بڑی شخصیت سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اپنی بات کو طول دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اُس کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل رہے۔

13. یعنی روشن ایسا ہوگا جیسے سورج ، مگر تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ بائیبل میں یدِ بیضاء کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جو وہاں سے نکل کر ہمارے ہاں تفسیروں میں بھی رواج پا گئی۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا، پھر جب دوبارہ اُسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت پر آگیا۔ یہی تعبیر اِس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا، اس لیے اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ یوں آنًا فانًا برص کا مرض پیدا بھی ہوتا ہے اور کافور بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اوّل تو ذوق ِ سلیم اس سے اِبا کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے ۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو یدِ بیضاء صرف اُس کی ذات کے لیے معجزہ ہو سکتا تھا ، اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رُعب طاری ہوتا۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہو جاتی تھی جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتیں ۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں۔