Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 105-115

وَيَسۡـئَلُوۡنَكَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ يَنۡسِفُهَا رَبِّىۡ نَسۡفًا ۙ‏  ﴿20:105﴾ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفۡصَفًا ۙ‏ ﴿20:106﴾ لَّا تَرٰى فِيۡهَا عِوَجًا وَّلَاۤ اَمۡتًا ؕ‏ ﴿20:107﴾ يَوۡمَـئِذٍ يَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِىَ لَا عِوَجَ لَهٗ​ؕ وَخَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا هَمۡسًا‏ ﴿20:108﴾ يَوۡمَـئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَـهُ الرَّحۡمٰنُ وَرَضِىَ لَـهٗ قَوۡلًا‏ ﴿20:109﴾ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ وَلَا يُحِيۡطُوۡنَ بِهٖ عِلۡمًا‏ ﴿20:110﴾ وَعَنَتِ الۡوُجُوۡهُ لِلۡحَىِّ الۡقَيُّوۡمِ​ؕ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ حَمَلَ ظُلۡمًا‏  ﴿20:111﴾ وَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا يَخٰفُ ظُلۡمًا وَّلَا هَضۡمًا‏ ﴿20:112﴾ وَكَذٰلِكَ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِيۡهِ مِنَ الۡوَعِيۡدِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ اَوۡ يُحۡدِثُ لَهُمۡ ذِكۡرًا‏ ﴿20:113﴾ فَتَعٰلَى اللّٰهُ الۡمَلِكُ الۡحَـقُّ​ ۚ وَلَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يُّقۡضٰٓى اِلَيۡكَ وَحۡيُهٗ​ وَقُلْ رَّبِّ زِدۡنِىۡ عِلۡمًا‏ ﴿20:114﴾ وَلَـقَدۡ عَهِدۡنَاۤ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِىَ وَلَمۡ نَجِدۡ لَهٗ عَزۡمًا‏ ﴿20:115﴾

105 - 82 یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا ربّ ان کو دُھول بنا کر اُڑا دے گا 106 - اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا 107 - کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے 83 108 - ۔۔۔۔ اُس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ 84 کے سوا تم کچھ نہ سُنو گے۔ 109 - اُس روز شفاعت کار گر نہ ہوگی اِلّا یہ کہ کسی کو رحمٰن اس کی اجازت دے اور اس کی بات سُننا پسند کرے 85 110 - ۔۔۔۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے 86 111 - ۔۔۔۔ لوگوں کے سر اُس حیّ و قیّوم کے آگے جُھک جائیں گے۔ نامراد ہوگا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے ہو۔ 112 - اور کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہ ہوگا اُس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اِس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔ 87 113 - اور اے محمدؐ ، اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے 88 اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہو کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں۔ 89 114 - پس بالا و برتر ہے اللہ ، پادشاہِ حقیقی۔ 90 اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔ 91 115 - 92 ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، 93 مگر وہ بھُول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ 94 ؏ ٦


Notes

82. یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سُورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سُنائی جا رہی ہوگی اس وقت کسی نے مذاق اُڑانے کے لیےیہ سوال اُٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اُس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے چلے جا رہے ہوں گے۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جارہی تھی۔ مکہ جس مقام پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اُونچے اُونچے پہاڑ ہیں۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی ۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوُٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرّے ، اور ان کو دُھول کی طرح اُڑا کر ساری زمین ایک ایسا ہموار میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی، کوئی نشیب و فراز نہ ہوگا۔ اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بَل اور کوئی معمولی سی سلوٹ تک نہ ہو۔

83. عالم ِ آخرت میں زمین کی جو نئی شکل بنے گی اسے قرآن مجید میں مختلف مواقع پر بیان کیا گیا ہے ۔ سُورۂ انشقاق میں فرمایا اِذَ ا الْاَرْضُ مُدَّتْ”زمین پھیلا دی جائے گی“۔ سُورۂ انفطار میں فرمایا اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ، ”سمندر پھاڑ دیے جائیں گے“، جس کا مطلب غالبًا یہ ہے کہ سمندروں کی تہیں پھٹ جائیں گی اور سارا پانی زمین کے اندر اُتر جائے گا ۔ سُورہ ٔ تکویر میں فرمایا اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ،”سمندر بھر دیے جائیں گے یا پاٹ دیے جائیں گے“۔ اور یہاں بتایا جا رہا ہے کہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے ساری زمین ایک ہموار میدان کی طرح کر دی جائے گی۔ اس سے جو شکل ذہن میں بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عالمِ آخرت میں یہ پورا کرۂ زمین سمندروں کو پاٹ کر ، پہاڑوں کو توڑ کر ، نشیب و فراز کو ہموار اور جنگلوں کو صاف کر کے بالکل ایک گیند کی طرح بنا دیا جائے گا ۔ یہی وہ شکل ہے جس کے متعلق سُورۂ ابراہیم آیت ۴۸ میں فرمایا یَوْمَ تُبَدِّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ،” وہ دن جبکہ زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی“۔ اور یہی زمین کی وہ شکل ہو گی جس پر حشر قائم ہوگا اور اللہ تعالیٰ عدالت فرمائے گا۔ پھر اس کی آخری اور دائمی شکل وہ بنا دی جائے گی جس کو سُورۂ زُمر آیت نمبر ۷۴ میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: وَ قَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَ ہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ ، فِنِعْمَ اَجْرَ الْعٰمِلِیْنَ oیعنی متقی لوگ”کہیں گے کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم سے اپنے وعدے پورے کیے اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم اس جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے“۔ اِس سے معلوم ہوا کہ آخر کار یہ پورا کُرہ جنت بنا دیا جائے گا اور خدا کے صالح و متقی بندے اس کے وارث ہوں گے۔ اُس وقت پوری زمین ایک ملک ہو گی۔ پہاڑ ، سمندر ، دریا، صحرا، جو آج زمین کو بے شمار ملکوں اور وطنوں میں تقسیم کر رہےہیں ، اور ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی بانٹے دے رہے ہیں، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گے۔ (واضح رہے کہ صحابہ و تابعین میں سے ابنِ عباس ؓ اور قتادہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اِسی زمین پر ہوگی ، اور سورۂ نجم کی آیت عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی o عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ جنت ہے جس میں اب شہدا ء کی ارواح رکھی جاتی ہیں)۔

84. اصل میں لفظ ”ہَمس“ استعمال ہوا ہے ، جو قدموں کی آہٹ ، چپکے چپکے بولنے کی آواز، اونٹ کے چلنے کی آواز اور ایسی ہی ہلکی آوازوں کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہاں کوئی آواز، بجز چلنے والوں کے قدموں کی آہٹ اور چپکے چپکے بات کرنے والوں کی کھُسر پھُسر کے نہیں سُنی جائے گی۔ ایک پُر ہیبت سماں بندھا ہوا ہو گا۔

85. اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ” اُس روز شفاعت کا ر گر نہ ہوگی اِلَّا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو“۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأت نہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہِ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ ایک طرف فرمایا مَنْ ذَ ا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بَاِذْنِہٖ،” کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے“ (بقرہ – آیت ۲۵۵)۔ اور یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ، لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہْ الرَّ حْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا، ”وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے، ذرا بات نہ کریں گے، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے“ (النبا – آیت۳۸)۔ دوسری طرف ارشاد ہوا وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ،” اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر (رحمان) راضی ہو، اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں“( الانبیاء – آیت ۲۸)۔ اور کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰ تِ لَا تُغْنِیْ شَفَا عَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْم ”بَعْدِ اَنْ یَّاْ ذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآ ءُ وَیَرْضٰی، ”کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے کہ اللہ سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے“ (النجم ، آیت ۲۶)۔

86. ”یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء ، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے ، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتُوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے ۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لائیں گے ، درانحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نافرض شناس ، رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کرتُوتوں سے واقف ہوں، اس لیے آپ براہِ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح ، معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہوگا۔ نیک بندے ، جو دنیا میں خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیاجائے گا۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کر یں گے، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اُسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے ۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو، جیسا کہ وَقَالَ صَوَابًا (اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربّانی صاف بتا رہا ہے۔ بَونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں ، ہزاروں بندگانِ خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اُٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔

87. یعنی وہاں فیصلہ ہر انسان کے اوصاف (Merits ) کی بنیاد پر ہو گا۔ جو شخص کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے آئے گا ، خواہ اس نے ظلم اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو، یا خلقِ خدا کے حقوق پر ، یا خود اپنے نفس پر ، بہرحال یہ چیز اسے کامیابی کا منہ نہ دیکھنے دے گی۔ دوسری طرف جو لوگ ایمان اور عملِ صالح (محض عمل ِ صالح نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ عملِ صالح، اور محض ایمان بھی نہیں بلکہ عملِ صالح کے ساتھ ایمان) لیے ہوئے آئیں گے ، اُن کے لیے وہاں نہ تو اس امر کا کوئی اندیشہ ہے کہ ان پر ظلم ہو گا، یونہی خواہ مخواہ بے قصُور ان کو سزا دی جائے گی، اور نہ اسی امر کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جائے گا اور ان کے جائز حقوق مار کھائے جائیں گے۔

88. یعنی ایسے ہی مضامین اور تعلیمات اور نصائح سے لبریز ۔ اِس کا اشارہ ان تمام مضامین کی طرف ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، نہ کہ محض قریبی مضمون کی طرف جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے۔ اور اس کا سلسلۂ بیان اُن آیات سے جُڑتا ہے جو قرآن کے متعلق آغاز سُورہ اور پھر قصّۂ موسیٰ کے اختتام پر ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ”تذکرہ“ جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، اور وہ ”ذِکر“ جو ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو عطا کیا ہے، اِس شان کا تذکرہ اور ذِکر ہے۔

89. یعنی اپنی غفلت سے چونکیں، بھُولے ہوئے سبق کو کچھ یاد کریں، اور ان کو کچھ اِس امر کا احساس ہو کہ کن راہوں میں بھٹکے چلے جا رہے ہیں اور اس گمراہی کا انجام کیا ہے۔

90. اِس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جاتے ہیں ، اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر ہو۔ اندازِ بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور وَلَقَدْ عَھِدْ نَآ اِلیٓ اٰ دَمَ سے دوسری تقریر شروع ہو تی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہو ں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمِ الہٰی کے تحت ان کو سورہ میں جمع کر دیا ہوگا۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے۔

91. فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات پر خبردار کرتا ہے جو وحی نازل کر نے کے دَوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب نہ سمجھا گیا ، اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دُہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذِ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہوگا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ رہی ہوگی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسُوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی وصول کر نے کا صحیح طریقہ سمجھا یا جائے ، اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جائے۔

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ طٰہٰ کا یہ حصّہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ میں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی اخذ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہو ا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اِس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہُوا تھا اور اس پر سلسلہ ٔ کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَجْعَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰ نَہٗ، فَاِذَا قَرَ اْنٰہٗ فَا تَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ،” اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اِسے یاد کرادینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔“ سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھُولیں گے نہیں، سَنُقْرِ ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیا ت آپ پر طاری ہونی بند ہوگئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔

92. جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے ، یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اُس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے ۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں۔ مثلاً یہ کہ:

(۱) وہ بھُولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوعِ انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ”ذکر“ آتے رہے ہیں۔

(۲) انسان اُس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے، اور یہ کمزوری وہ آغازِ آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے ۔ سب سے پہلی بھُول اُس کے اوّلین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے، اِسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاددہانی کرائی جاتی رہے۔

(۳) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اُس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اِس”ذِکر“کے ساتھ وہ کرے گا ، آغازِ آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی۔ آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کر و گے تو گمراہی و بدبختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلا ئے مصیبت ہو گے۔

(۴) ایک چیز ہے بھُول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی دشمن ، شیطان کے بہکائے میں آجائے اور غلطی کر بیٹھے۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا۔ اِس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا۔

93. آدم علیہ السّلام کا قصہ اس سے پہلے سورہ ٔ بقرہ ، سورۂ اعراف (دومقامات پر ) ، سورۂ حِجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں گزر چکا ہے۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دُہرایا جا رہا ہے ۔ ہر جگہ سلسلۂ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں ۔ قصّے کے جو اجزا ء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں ، دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے ، یا طرزِ بیان ذرا مختلف ہو گا۔ پورے قصّے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔ ہم نے ہرجگہ اس کے ربط و تعلق اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا ہے۔

94. یعنی اُس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی سرکشی کی بنا پر نہ تھا ، بلکہ غفلت اور بھُول میں پڑجانے اور عزم وارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پرو ا کرتا ہوں ، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے ، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اِس کےبجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی ، بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا اُس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے) یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر تا۔

بعض لوگوں نے ”اُس میں عز م نہ پایا“ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ” ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا“ یعنی اُس نے جو کچھ کیا بھُولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا ۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا عَلَی الْعِصْیَانِ کہا جاتا نہ کہ محض لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعتِ حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السّلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصّہ بیان نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گاکہ ”ہم نے اس میں اطاعت ِ امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا“۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اُس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ آدم علیہ السّلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نا مناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ”مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہوگی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سُن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی اور نہ موقع محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے “۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد ۱۶۔ صفحہ ۲۴۳)۔ 0