Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 116-128

وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓـئِكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰى‏ ﴿20:116﴾ فَقُلۡنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوۡجِكَ فَلَا يُخۡرِجَنَّكُمَا مِنَ الۡجَـنَّةِ فَتَشۡقٰى‏ ﴿20:117﴾ اِنَّ لَـكَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِيۡهَا وَلَا تَعۡرٰىۙ‏ ﴿20:118﴾ وَاَنَّكَ لَا تَظۡمَؤُا فِيۡهَا وَلَا تَضۡحٰى‏ ﴿20:119﴾ فَوَسۡوَسَ اِلَيۡهِ الشَّيۡطٰنُ قَالَ يٰۤاٰدَمُ هَلۡ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الۡخُلۡدِ وَمُلۡكٍ لَّا يَبۡلٰى‏ ﴿20:120﴾ فَاَكَلَا مِنۡهَا فَبَدَتۡ لَهُمَا سَوۡاٰ تُہُمَا وَطَفِقَا يَخۡصِفٰنِ عَلَيۡهِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَـنَّةِ​ وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى​ۖ‏ ﴿20:121﴾ ثُمَّ اجۡتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيۡهِ وَهَدٰى‏ ﴿20:122﴾ قَالَ اهۡبِطَا مِنۡهَا جَمِيۡعًا​ۢ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ​ ۚ فَاِمَّا يَاۡتِيَنَّكُمۡ مِّنِّىۡ هُدًى ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشۡقٰى‏  ﴿20:123﴾ وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى‏ ﴿20:124﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِىۡۤ اَعۡمٰى وَقَدۡ كُنۡتُ بَصِيۡرًا‏ ﴿20:125﴾ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتۡكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيۡتَهَا​ۚ وَكَذٰلِكَ الۡيَوۡمَ تُنۡسٰى‏  ﴿20:126﴾ وَكَذٰلِكَ نَجزِىۡ مَنۡ اَسۡرَفَ وَلَمۡ يُؤۡمِنۡۢ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ​ؕ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَاَبۡقٰى‏ ﴿20:127﴾ اَفَلَمۡ يَهۡدِ لَهُمۡ كَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ يَمۡشُوۡنَ فِىۡ مَسٰكِنِهِمۡ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى النُّهٰى‏ ﴿20:128﴾

116 - یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ 117 - اس پر ہم نے آدمؑ 95 سے کہا کہ ”دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے 96 ، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنّت سے نکلوا دے 97 اور تم مصیبت میں پڑ جاوٴ۔ 118 - یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھُوکے ننگے رہتے ہو، 119 - نہ پیاس اور دُھوپ تمہیں ستاتی ہے۔“ 98 120 - لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا ۔ 99 کہنے لگا ”آدم، بتاوٴں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟“ 100 121 - آخر کار دونوں(میاں بیوی)اُس درخت کا پھل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی اُن کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے۔ 101 آدمؑ نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔ 102 122 - پھر اُس کے ربّ نے اُسے برگزیدہ کیا 103 اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ 104 123 - اور فرمایا ”تم دونوں (فریق ، یعنی انسان اور شیطان)یہاں سے اُتر جاوٴ۔ تم ایک دُوسرے کے دُشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہوگا۔ 124 - اور جو میرے ”ذکر“(درسِ نصیحت)سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی 105 اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔“ 106 125 - ۔۔۔۔ وہ کہے گا” پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟“ 126 - اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں ، تُو نے بُھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے۔ “ 107 ۔۔۔۔ 127 - اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں)بدلہ دیتے ہیں ، 108 اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔ 128 - پھر کیا اِن لوگوں کو 109 (تاریخ کے اِس سبق سے)کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی ( بربادشدہ)بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ درحقیقت اِس میں 110 بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کےلیےجو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔ ؏۷


Notes

95. یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا ، یعنی یہ کہ ”اِس خاص درخت کا پھل نہ کھانا“۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہو چکا ہے۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہوجاتا ہے ، اور کس طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجائے یہاں اُس فہمائش کا ذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی۔

96. دشمنی کا مظاہرہ اُسی وقت ہو چکا تھا۔ آدم اور حوا علیہما السّلام خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف یہ کہہ کر کیا ہے کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ط خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ،”میں اس سے بہتر ہوں ، تُو نےمجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے“(اعراف ۔ آیت ۱۲۔ ص۔ آیت ۷۶)۔ اَرَ اَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ، ”ذرا دیکھ تو سہی، یہ ہے وہ ہستی جس کو تُو نے مجھ پر فضیلت دی ہے“۔ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا،” اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تُو نے مٹی سے بنایا ہے؟“ (بنی اسرائیل ۔ آیات ۶۱ – ۶۲) ۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے، میں اِسے بہکا کر آپ کو دکھادوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ۔ اعراف، حِجر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورۂ ص میں بھی آرہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا دشمن ہے، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی ، بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سُن چکے تھے۔

97. اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکائے میں آکر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سےچھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں۔

98. یہ تشریح ہے اُس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ، یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا، پانی، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کر نے کے لیے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا علیہما السّلام پر واضح ہوگئِی کہ اگر وہ شیطان کے بہکائے میں آکر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نِکل کر انہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنار ، یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور اپنی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ جب تک نہ بہا ئیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصّہ کھینچ لے جائے گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت۔

99. یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السّلام تھے نہ کہ حضرت حوا۔ اگرچہ سورۂ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رُخ دراصل حضرت آدم ہی کی طرف تھا۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہےکہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا(پیدائش ، باب ۳)۔

100. سورۂ اعراف میں شیطان کی گفتگو کی مزید تفصیل ہم کو یہ ملتی ہے وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ،”اور اس نے کہا کہ تمہارے ربّ نے تم کو اس درخت سے صرف اس لیے روک دیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ، یا ہمیشہ جیتے نہ رہو“۔(آیت ۲۰)۔

101. بالفاظِ دیگر نافرمانی کا صدور ہوتے ہی وہ آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرکاری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں، اور اس کا اوّلین ظہوُر لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا۔ غذا، پانی اور مسکن سے محرومی کی نوبت تو بعد کو ہی آنی تھی، اس کا پتہ تو بھوک پیاس لگنے پر ہی چل سکتا تھا، اور مکان سے نکالے جانے کی باری بھی بعد ہی میں آسکتی تھی۔ مگر پہلی چیز جس پر نافرمانی کا اثر پڑا وہ سرکاری پوشاک تھی جو اسی وقت اُتروا لی گئی۔

102. یہاں اُس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے جو آدم علیہ السّلام سے ظہُور میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور ربّ جانتے تھےاوردل سے مانتے تھے۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہِ راست علم ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ شیطان اُن کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکا ؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا ۔ اِن ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آکر ایک بہتر حالت(زندگیِ جاوداں اور سلطنتِ لازوال) کا لالچ دیا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھِسل گئے ، حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کےذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے۔ بس ایک فوری جذبے نے ، جو شیطانی تحریص کے زیرِ اثر اُبھر آیا تھا، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقامِ بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔ یہی وہ”بھول“ اور ”فقدانِ عزم“ ہے جس کا ذکر قصّے کے آغاز میں کیا گیا تھا، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہو ئی، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو۔

103. یعنی شیطان کی طرح راندۂ درگاہ نہ کر دیا، اطاعت کی کوشش میں ناکام ہو کر جہاں وہ گر گئے تھے وہیں انہیں پڑا نہیں چھوڑ دیا ، بلکہ اُٹھا کر پھر اپنے پاس بلا لیا اور اپنی خدمت کے لیے چُن لیا۔ ایک سلوک وہ ہے جو بالارادہ بغاوت کرنے والے اور اکڑ اور ہیکڑی دکھانے والے نوکر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کا مستحق شیطان تھا اور ہر وہ بندہ ہے جو ڈٹ کر اپنے ربّ کی نافرمانی کرے اور خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ دوسرا سلوک وہ ہے جو اس وفادار بندے کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محض”بھُول“ اور ”فقدانِ عزم“ کی وجہ سے قصور کر گزرا ہو، اور پھر ہوش آتے ہی اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائے۔ یہ سلوک حضرت آدم و حوا سے کیا گیا ، کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ پکار اُٹھے تھے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْ نَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ، ”اے ہمارے پروردگار ، ہم نے اپنےنفس پر ظلم کیا ، اور اگر تُو ہم سے درگزر نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم برباد ہو جائیں گے“(اعراف ۔ آیت ۲۳)۔

104. یعنی صرف معاف ہی نہ کیا ، بلکہ آئندہ کے لیے راہِ راست بھی بتائی اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی سکھایا۔

105. دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔ کروڑ پتی بھی ہوگا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرّت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔

106. ”اس جگہ آدم علیہ السّلام کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ جس طریقے سے یہاں ، اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ (واللہ اعلم بالصواب) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السّلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین پر بنائی گئی ہو۔ بہر حال وہاں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کےکھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمّہ تھا اور خدمت گار (فرشتے) اُس کے حکم کے تابع تھے۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعًا کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے۔ مگر اس عہد ے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھُل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اور خوبیاں کیا ۔ چنانچہ امتحان لیا گیا اور جو بات کھُلی وہ یہ تھی کہ اُمیدوار تحریص و اِطماع کے اثر میں آکر پھسل جاتا ہے، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہتا، اور اس کے علم پر نسیان غالب آجاتا ہے۔ اِس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجائے آزمائشی خلافت دی گئی ، اور آزمائش کے لیے ایک مدّت (اجلِ مسمّٰی ، جس کا اختتام قیامت پر ہو گا) مقرر کر دی گئی۔ اِس آزمائش کے دَور میں اُمیدوار کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں ۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں اور اگر بھُول لاحق ہوتی ہے ، یا تحریص و اطماع کے اثر میں آکر پھسلتے ہیں ، تو تنبیہ ، تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے بھی ہیں یا نہیں؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے ، طاعت کا یا معصیت کا؟ اس آزمائشی خلافت کے دَوران میں ہر ایک کے طرزِ عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا ۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت ، اُس دائمی زندگی اور لازوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی، عطا کی جائے گی۔ اُس وقت یہ پُوری زمین جنت بنا دی جائے گی اور اس کے وارث خدا کے صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر، یا بھُول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی۔ جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اَینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ وہاں پیہم ترقی ہو گی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو۔ اوروہاں خلافتِ الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے ۔ مگر ان ترقیات اور اُن خدمات کا تصوّر کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا توازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی۔ اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ آدم و حوا کا قصّہ جس طرح بائیبل میں بیان ہو ا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ”خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔ اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا“۔ ”اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا“۔ ”اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔ کیونکہ جس روز تُو نے اس میں سے کھایا تو مرا“۔ ”اور خداوند خدا اُس پسلی سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا“۔ ”اور آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے“۔” اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا ، چالاک تھا ، اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کےکسی درخت کا پھل تم نہ کھانا“؟”سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤگے“۔ چنانچہ عورت نے اس کا پھل لے کر کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلایا۔”تب دونوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز، جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھر تا تھا، سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا“۔”پھر خدا نے آدم کو پکارا کہ تُو کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیری آواز سُن کر ڈرا اور چھُپ گیا کیونکہ میں ننگا تھا۔ خدا نے کہا ارے، تجھ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ تُو ننگا ہے ۔ ضرور تُو نے اس درخت کا پھل کھایا ہو گا جس سے میں نے منع کیا تھا۔ آدم نے کہا کہ مجھے حوّا نے اس کا پھل کھلایا، اور حوّا نے کہا مجھے سانپ نے بہکایا تھا۔ اس پر خدا نے سانپ سے کہا” اس لیے کہ تُو نے یہ کیا تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھیرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کی درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اس کی ایڑی پر کاٹے گا“۔ اور عورت کو یہ سزا دی کہ ”میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا ، تُو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا“۔ اور آدم کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور میرے حکم کے خلاف کیا ” اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی، مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا ۔۔۔۔۔۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا“۔ پھر”خداوند نے آدم اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر اُن کو پہنائے“۔ ”اور خداوند نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھا ئے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اس لیے خداوند خدا نے اُس کو باغِ عدن سے باہر کر دیا“(پیدائش، باب ۲ ، آیات ۷ – ۲۵۔ باب ۳ ، آیات ۱ – ۲۳)

بائیبل کے اِس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتےہوئے نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصّے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔

107. قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآ ءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ،” تُو اِس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا ، اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے“ یعنی تجھے نظر آرہا ہے۔(ق۔ آیت ۲۲)۔ دوسری کیفیت یہ ہے: اِنَّمَا یُؤَ خِّرُھُمْ لِیَوْ مٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَا رُ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَ تُھُمْ ھَوَآ ء، ” اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اُڑتے جاتے ہیں“ (ابراہیم ۔ آیت ۴۳)۔ تیسری کیفیت یہ ہے: وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَا بًا یَّلْقٰہُ مَنْشُورًا ، اِقْرَأْ کِتَابَکَ ، کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا، ” اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے“ (بنی اسرائیل ۔ آیات ۱۳ – ۱۴)۔ اور انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے جو آیت زیرِ بحث میں بیان ہوئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامتِ اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے، لیکن بس ان کی بینائی یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی۔ باقی دوسری حیثیتوں سے ان کا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو، جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو، اور اس کو کچھ نہ سُوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے۔ اسی کیفیت کو اِن الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ” جس طرح تُو نے ہماری آیات کو بھُلا دیا تھا اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے“، یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تُو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا ، کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا ، اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی۔

108. اشارہ ہے اس ”تنگ زندگی“ کی طرف جو اللہ کے ”ذِکر“ یعنی اس کتاب اور اس کے بھیجے ہوئے درسِ نصیحت سے منہ موڑنے والوں کو دنیا میں بسر کرائی جاتی ہے۔

109. اشارہ ہے اہلِ مکّہ کی طرف جو اُس وقت مخاطب تھے۔

110. یعنی تاریخ کے اِس سبق میں ، آثارِ قدیمہ کے اس مشاہدے میں، نسلِ انسانی کے اِس تجربے میں۔