Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 25-54

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىْ ۙ‏ ﴿20:25﴾ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىْ ۙ‏ ﴿20:26﴾ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِیْ ۙ‏ ﴿20:27﴾ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِیْ ‏ ﴿20:28﴾ وَاجۡعَلْ لِّىۡ وَزِيۡرًا مِّنۡ اَهۡلِىْ ۙ‏ ﴿20:29﴾ هٰرُوۡنَ اَخِى ۙ‏ ﴿20:30﴾ اشۡدُدۡ بِهٖۤ اَزۡرِىْ ۙ‏ ﴿20:31﴾ وَاَشۡرِكۡهُ فِىۡۤ اَمۡرِىْ ۙ‏ ﴿20:32﴾ كَىۡ نُسَبِّحَكَ كَثِيۡرًا ۙ‏ ﴿20:33﴾ وَّنَذۡكُرَكَ كَثِيۡرًا ؕ‏ ﴿20:34﴾ اِنَّكَ كُنۡتَ بِنَا بَصِيۡرًا‏ ﴿20:35﴾ قَالَ قَدۡ اُوۡتِيۡتَ سُؤۡلَـكَ يٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:36﴾ وَلَـقَدۡ مَنَـنَّا عَلَيۡكَ مَرَّةً اُخۡرٰٓىۙ‏ ﴿20:37﴾ اِذۡ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اُمِّكَ مَا يُوۡحٰٓى ۙ‏ ﴿20:38﴾ اَنِ اقۡذِفِيۡهِ فِى التَّابُوۡتِ فَاقۡذِفِيۡهِ فِى الۡيَمِّ فَلۡيُلۡقِهِ الۡيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَاۡخُذۡهُ عَدُوٌّ لِّىۡ وَعَدُوٌّ لَّهٗ​ ؕ وَاَلۡقَيۡتُ عَلَيۡكَ مَحَـبَّةً مِّنِّىۡ ۚ وَلِتُصۡنَعَ عَلٰى عَيۡنِىۡ ۘ‏ ﴿20:39﴾ اِذۡ تَمۡشِىۡۤ اُخۡتُكَ فَتَقُوۡلُ هَلۡ اَدُلُّـكُمۡ عَلٰى مَنۡ يَّكۡفُلُهٗ​ ؕ فَرَجَعۡنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ كَىۡ تَقَرَّ عَيۡنُهَا وَلَا تَحۡزَنَ ؕ وَقَتَلۡتَ نَـفۡسًا فَنَجَّيۡنٰكَ مِنَ الۡغَمِّ وَفَتَـنّٰكَ فُتُوۡنًا فَلَبِثۡتَ سِنِيۡنَ فِىۡۤ اَهۡلِ مَدۡيَنَ ۙ ثُمَّ جِئۡتَ عَلٰى قَدَرٍ يّٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:40﴾ وَاصۡطَنَعۡتُكَ لِنَفۡسِى​ۚ‏ ﴿20:41﴾ اِذۡهَبۡ اَنۡتَ وَاَخُوۡكَ بِاٰيٰتِىۡ وَلَا تَنِيَا فِىۡ ذِكۡرِى​ۚ‏ ﴿20:42﴾ اِذۡهَبَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ اِنَّهٗ طَغٰى​ ​ۖۚ​​​‏ ﴿20:43﴾ فَقُوۡلَا لَهٗ قَوۡلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوۡ يَخۡشٰى‏ ﴿20:44﴾ قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّـنَا نَخَافُ اَنۡ يَّفۡرُطَ عَلَيۡنَاۤ اَوۡ اَنۡ يَّطۡغٰى‏  ﴿20:45﴾ قَالَ لَا تَخَافَآ​ اِنَّنِىۡ مَعَكُمَاۤ اَسۡمَعُ وَاَرٰى‏ ﴿20:46﴾ فَاۡتِيٰهُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّكَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ ۙ وَلَا تُعَذِّبۡهُمۡ​ ؕ قَدۡ جِئۡنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكَ​ ؕ وَالسَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الۡهُدٰى‏ ﴿20:47﴾ اِنَّا قَدۡ اُوۡحِىَ اِلَـيۡنَاۤ اَنَّ الۡعَذَابَ عَلٰى مَنۡ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى‏  ﴿20:48﴾ قَالَ فَمَنۡ رَّبُّكُمَا يٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:49﴾ قَالَ رَبُّنَا الَّذِىۡۤ اَعۡطٰـى كُلَّ شَىۡءٍ خَلۡقَهٗ ثُمَّ هَدٰى‏ ﴿20:50﴾ قَالَ فَمَا بَالُ الۡقُرُوۡنِ الۡاُوۡلٰى‏ ﴿20:51﴾ قَالَ عِلۡمُهَا عِنۡدَ رَبِّىۡ فِىۡ كِتٰبٍ​​ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّىۡ وَلَا يَنۡسَى‏  ﴿20:52﴾ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ مَهۡدًا وَّسَلَكَ لَـكُمۡ فِيۡهَا سُبُلًا وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ؕ فَاَخۡرَجۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡ نَّبَاتٍ شَتّٰى‏ ﴿20:53﴾ كُلُوۡا وَارۡعَوۡا اَنۡعَامَكُمۡ​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِى الـنُّهٰى‏ ﴿20:54﴾

25 - موسیٰؑ نے عرض کیا”پروردگار، میرا سینہ کھول دے، 14 26 - اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے 27 - اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے 28 - تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، 15 29 - اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ 30 - ہارون ، جو میرا بھائی ہے۔ 16 31 - اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر 32 - اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، 33 - تاکہ ہم خُوب تیری پاکی بیان کریں 34 - اور خُوب تیرا چرچا کریں۔ 35 - تُو ہمیشہ میرے حال پر نگران رہا ہے۔“ 36 - فرمایا ”دیا گیا جو تُو نے مانگا اے موسیٰؑ ، 37 - ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ 17 38 - یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے 39 - کہ اِس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اُٹھا لے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تُجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تُو میری نگرانی میں پالا جائے۔ 40 - یاد کر جب کہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، ”میں تمہیں اُس کا پتہ دُوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟“ اِس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔ اور (یہ بھی یاد کر کہ)تُو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا ، ہم نے تُجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تُو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھہرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تُو آگیا ہے اے موسیٰؑ ۔ 41 - میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔ 42 - جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ اور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔ 43 - جاوٴ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ 44 - اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کے وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔“ 18 45 - دونوں الف18 نے عرض کیا ”پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا۔“ 46 - فرمایا ”ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ 47 - جاوٴ اُس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ 48 - ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جُھٹلائے اور منہ موڑے۔“ 19 49 - فرعون 20 نے کہا ”اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کو ن ہے اے موسیٰ؟“ 21 50 - موسیٰؑ نے جواب دیا” ہمارا ربّ وہ 22 ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔“ 23 51 - فرعون بولا ”اور پہلے جو نسلیں گزر چکیں ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟“ 24 52 - موسیٰؑ نے کہا” اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے۔“ 25 53 - ۔۔۔۔ 26 وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ 54 - کھاوٴ اور اپنے جانوروں کو بھی چراوٴ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ 27 ؏ ۲


Notes

14. یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے ۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ ؑ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر ، وہ ثبات ، وہ تحمل ، وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکا ر ہے۔

15. “بائیبل میں اس کی جو تشرح بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کیا”اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کیا۔ بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے “(خروج ۱۰:۴)۔ مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے اُٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی ، مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی۔

یہی قصّہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے ہاں کی تفسیروں میں بھی رواج پا گیا ۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اُٹھا کر مُنہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسُوس کر تے ہی ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ منہ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں سے آسکتی ہے؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوّت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی ( جس کا انہیں اُس وقت تک اتفاق نہ ہوا تھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہو جائے گی۔ اس لیےانہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں ۔ یہی چیز تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیا کہ ”یہ شخص تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتا“ لَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ الزُخرُف – ۵۲) اور یہی کمزوری تھی جس کو محسوس کر کے حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کو مددگار کے طور پر مانگا ۔ سورۂ قصص میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَ رْسِلْہُ مِعِیَ رِدْاً، ”میرا بھا ئی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اُس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج“۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی یہ کمزوری دُور ہو گئی تھی اور وہ خوب زور دار تقریر کرنے لگے تھے، چنانچہ قرآن میں اور بائیبل میں ان کی بعد کے دَور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمال فصاحت و طلاقتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔

یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقرر فرمائے۔ رسول ہمیشہ شکل و صورت ، شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں جن کے ظاہر و باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتا تھا۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہیں بھیجا جا سکتا تھا جس کی بنا پر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے اور یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

16. بائیبل کی روایت کے مطابق حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے تین برس بڑے تھے۔ (خروج ۷:۷)

17. اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ کو ایک ایک کر کے وہ احسانات یا د دلاتا ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اس وقت تک اس نے کیے تھے۔ اِن واقعات کی تفصیل سورۂ قصص میں بیان ہوئی ہے ۔ یہاں صرف اشارات کیے گئے ہیں جن سے مقصود حضرت موسیٰؑ کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم اُسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور اُسی کام کے لیے آج تک خاص طور پر سرکاری نگرانی میں پرورش پاتے رہے ہو جس پر اب تمہیں مامور کیا جا رہا ہے۔

18. آدمی کے راہِ راست پر آ نے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمٔن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے ، یا پھر بُرے انجام سے ڈر کر سیدھا ہو جاتا ہے۔