Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 55-76

مِنۡهَا خَلَقۡنٰكُمۡ وَفِيۡهَا نُعِيۡدُكُمۡ وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ تَارَةً اُخۡرٰى‏ ﴿20:55﴾ وَلَـقَدۡ اَرَيۡنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى‏ ﴿20:56﴾ قَالَ اَجِئۡتَنَا لِتُخۡرِجَنَا مِنۡ اَرۡضِنَا بِسِحۡرِكَ يٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:57﴾ فَلَنَاۡتِيَنَّكَ بِسِحۡرٍ مِّثۡلِهٖ فَاجۡعَلۡ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكَ مَوۡعِدًا لَّا نُخۡلِفُهٗ نَحۡنُ وَلَاۤ اَنۡتَ مَكَانًـا سُوًى‏ ﴿20:58﴾ قَالَ مَوۡعِدُكُمۡ يَوۡمُ الزِّيۡنَةِ وَاَنۡ يُّحۡشَرَ النَّاسُ ضُحًى‏ ﴿20:59﴾ فَتَوَلّٰى فِرۡعَوۡنُ فَجَمَعَ كَيۡدَهٗ ثُمَّ اَتٰى‏ ﴿20:60﴾ قَالَ لَهُمۡ مُّوۡسٰى وَيۡلَكُمۡ لَا تَفۡتَرُوۡا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسۡحِتَكُمۡ بِعَذَابٍ​ۚ وَقَدۡ خَابَ مَنِ افۡتَرٰى‏ ﴿20:61﴾ فَتَنَازَعُوۡۤا اَمۡرَهُمۡ بَيۡنَهُمۡ وَاَسَرُّوا النَّجۡوٰى‏ ﴿20:62﴾ قَالُوۡۤا اِنۡ هٰذٰٮنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيۡدٰنِ اَنۡ يُّخۡرِجٰكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِكُمۡ بِسِحۡرِهِمَا وَيَذۡهَبَا بِطَرِيۡقَتِكُمُ الۡمُثۡلٰى‏ ﴿20:63﴾ فَاَجۡمِعُوۡا كَيۡدَكُمۡ ثُمَّ ائۡتُوۡا صَفًّا​ ۚ وَقَدۡ اَفۡلَحَ الۡيَوۡمَ مَنِ اسۡتَعۡلٰى‏ ﴿20:64﴾ قَالُوۡا يٰمُوۡسٰٓى اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِىَ وَاِمَّاۤ اَنۡ نَّكُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَلۡقٰى‏ ﴿20:65﴾ قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا​ۚ فَاِذَا حِبَالُهُمۡ وَعِصِيُّهُمۡ يُخَيَّلُ اِلَيۡهِ مِنۡ سِحۡرِهِمۡ اَنَّهَا تَسۡعٰى‏ ﴿20:66﴾ فَاَوۡجَسَ فِىۡ نَفۡسِهٖ خِيۡفَةً مُّوۡسٰى‏ ﴿20:67﴾ قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰى‏ ﴿20:68﴾ وَاَ لۡقِ مَا فِىۡ يَمِيۡنِكَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا​ ؕاِنَّمَا صَنَعُوۡا كَيۡدُ سٰحِرٍ​ ؕ وَلَا يُفۡلِحُ السّٰحِرُ حَيۡثُ اَتٰى‏ ﴿20:69﴾ فَاُلۡقِىَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوۡنَ وَمُوۡسٰى‏  ﴿20:70﴾ قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَهٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَـكُمۡ​ؕ اِنَّهٗ لَـكَبِيۡرُكُمُ الَّذِىۡ عَلَّمَكُمُ السِّحۡرَ​ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيۡدِيَكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّلَاُصَلِّبَـنَّكُمۡ فِىۡ جُذُوۡعِ النَّخۡلِ وَلَـتَعۡلَمُنَّ اَيُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبۡقٰى‏ ﴿20:71﴾ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالَّذِىۡ فَطَرَنَا​ فَاقۡضِ مَاۤ اَنۡتَ قَاضٍ​ ؕ اِنَّمَا تَقۡضِىۡ هٰذِهِ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا ؕ‏ ﴿20:72﴾ اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَـغۡفِرَ لَـنَا خَطٰيٰنَا وَمَاۤ اَكۡرَهۡتَـنَا عَلَيۡهِ مِنَ السِّحۡرِؕ​ وَاللّٰهُ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى‏ ﴿20:73﴾ اِنَّهٗ مَنۡ يَّاۡتِ رَبَّهٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَـنَّمَ​ۚ لَا يَمُوۡتُ فِيۡهَا وَ لَا يَحۡيٰى‏ ﴿20:74﴾ وَمَنۡ يَّاۡتِهٖ مُؤۡمِنًا قَدۡ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓـئِكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الۡعُلٰىۙ‏ ﴿20:75﴾ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ ؕ وَذٰ لِكَ جَزَآءُ مَنۡ تَزَكّٰى‏ ﴿20:76﴾

55 - اِس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے ، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ 28 56 - ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں 29 دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔ 57 - کہنے لگا ”اے موسیٰؑ ، کیا تُو ہمارے پاس اِس لیے آیا ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ 30 58 - اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادُو لاتے ہیں ۔ طے کر لیے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔ نہ ہم اِس قرارداد سے پھریں گے نہ تُو پِھریو۔ کُھلے میدان میں سامنے آجا۔“ 59 - موسیٰؑ نے کہا ”جشن کا دن طے ہوا، اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں۔“ 31 60 - فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آگیا۔ 32 61 - موسیٰؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے )33 کہا” شامت کے مارو، نہ جھُوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، 34 ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیاناس کر دے گا۔ جُھوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا۔“ 62 - یہ سُن کر اُن کے درمیان اختلافِ رائے ہوگیا اور وہ چُپکے چُپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ 35 63 - آخر کار کچھ لوگوں نے کہا کہ 36 ”یہ دونوں تو محض جادُو گر ہیں۔ اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ 37 64 - اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کر کے میدان میں آوٴ۔ 38 بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔“ 65 - جادُو گر 39 بولے ”موسیٰؑ ، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟“ 66 - موسیٰؑ نے کہا” نہیں، تم ہی پھینکو۔“ یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادُو کے زور سے موسیٰؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، 40 67 - اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ 41 68 - ہم نے کہا” مت ڈر، تُو ہی غالب رہے گا۔ 69 - پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نِگلے جاتا ہے۔ 42 یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادُو گر کا فریب ہے، اور جادُوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے۔“ 70 - آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادُو گر سجدے میں گِرا دیے گئے 43 اور پُکار اُٹھے” مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے ربّ کو۔“ 44 71 - فرعون نے کہا” تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہوگیا کہ یہ تمہارا گُرو ہے جس نے تمہیں جادُوگری سکھائی تھی۔ 45 اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاوٴں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں 46 اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ 47 پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے“ 48 (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ )۔ 72 - جادُوگروں نے جواب دیا”قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی (صداقت پر)تجھے ترجیح دیں۔ 49 تُو جو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ 73 - ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اِس جادُوگری سے جس پر تُو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اوروہی باقی رہنے والا ہے“ 74 - ۔۔۔۔ حقیقت 50 یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگا اُس کے لیے جہنّم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔ 51 75 - اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، 76 - سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔ ؏ ۳


Notes

28. یعنی ہر انسان کو لازمًا تین مرحلوں سے گزرنا ہے۔ ایک مرحلہ موجودہ دنیا میں پیدائش سے لے کر موت تک کا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک کا۔ اور تیسرا قیامت کے روز دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کا مرحلہ ۔ یہ تینوں مرحلے اِس آیت کی رُو سے اِسی زمین پر گزرنے والے ہیں۔

29. یعنی آفاق و اَنْفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی ، اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں۔ اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کو پے در پے دکھائے گئے۔

30. جادو سے مراد عصا اور یدِ بیضاء کا معجزہ ہے جو سورۂ اعراف اور سورۂ شعراء کی تفصِیلات کے بموجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بدحواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اِس فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ”تُو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے “۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تُو جادوگر ہے اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تُو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے ، کھلی ہوئی بدحواسی کی علامت ہے۔ دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلّل تقریر، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہلِ دربار ، بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس لیے ا س نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اِسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو،ذرا دیکھو، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھیراتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو، ہوشیار ہو جاؤ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے ، اقتدار کا بھُوکا ہے ، چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے۔ اِن ہتھکنڈوں سے وہ دعوتِ حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ (مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن ، جلد دوم کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں، الاعراف حواشی، ۸۷، ۸۸، ۸۹ – یونس، حاشیہ ۷۵۔ اِس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسرِ اقتدار لوگوں نے داعیانِ حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھُوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔ اس کی مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت نمبر ۱۱۰ ، ۱۲۳ ۔ یونس، آیت نمبر ۷۸ ۔ المومنون ، آیت نمبر ۲۴)۔

31. فرعون کا مدّعا یہ تھا کہ ایک دفعہ جادوگروں سے لاٹھیوں اور رسیوں کا سانپ بنوا کر دکھا دوں تو موسیٰ ؑ کے معجزے کا جو اثر لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دُور ہو جائے گا۔ یہ حضرت موسیٰ کی منہ مانگی مراد تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ الگ کوئی دن اور جگہ مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جشن کا دن قریب ہے ، جس میں تمام ملک کے لوگ دار السلطنت میں کھِچ کر آجاتے ہیں۔ وہیں میلے کے میدان میں مقابلہ ہو جائے تاکہ ساری قوم دیکھ لے۔ اور وقت بھی دن کی پوری روشنی کا ہونا چاہیے تاکہ شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔

32. فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کے فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اُسے لے آئیں۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کےکمالات دیکھ کر عصا ئے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں۔ کھلم کھلا کہا جانےلگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا (ملاحظہ ہو سورۂ شعراء رکوع ۳)۔

اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مصر کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی، دونوں کے عملی طریقے اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا (ملاحظہ ہو Toynbee کی A study of History صفحہ ۳۱ – ۳۲)۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدّد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نسبت ایک توحید ی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صد حصہ تھے ۔ اس کے علاوہ اُس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمِینوفِس یا اَخناتون (سن ۱۳۷۷ ۔ ۱۳۶۰ ق م) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتُون باقی رکھا گیا تھا۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکوت ہی کے زور سے اُلٹ دیا گیا، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا۔ اِن حالات کو نگاہمیں رکھا جائے تو فرعون کی وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی۔

33. یہ خطاب عوام سے نہ تھا جنہیں ابھی حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ معجزہ دکھاتے ہیں یا جادو، بلکہ خطاب فرعون اور اس کے درباریوں سے تھا جو انہیں جادوگر قرار دے رہے تھے۔

34. یعنی اُس کے معجزے کو جادو اور اس کے پیغمبر کو ساحِر کذّاب نہ قرار دو۔

35. اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنی کمزوری کو خود محسُوس کررہےتھے۔ ان کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ دکھایا ہے وہ جادو نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی سے اس مقابلے میں ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے آئے تھے ، اور جب عین موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کو للکار کر متنبہ کیا تو ان کا عزم یکایک متزلزل ہو گیا۔ ان کا اختلاف رائے اس امر میں ہوا ہوگا کہ آیا اِس بڑے تہوار کے موقع پر ، جبکہ پورے ملک سے آئے ہوئے آدمی اکٹھے ہیں، کھلے میدان اور دن کی پوری روشنی میں یہ مقابلہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ اگر یہاں ہم شکست کھا گئے اور سب کے سامنے جادو اور معجزے کا فرق کھل گیا تو پھر بات سنبھالے نہ سنبھل سکے گی۔

36. اور یہ کہنے والے لازمًا فرعونی پارٹی کے وہ سر پھرے لوگ ہوں گے جو حضرت موسیٰ کی مخالفت میں ہر بازی کھیل جانے پر تیار تھے۔ جہاندیدہ اور معاملہ فہم لوگ قدم آگے بڑھاتے ہوئے جھجک رہے ہوں گے۔ اور یہ سرپھرے جوشیلے لوگ کہتے ہوں گے کہ خواہ مخواہ کی دور اندیشیاں چھوڑ دو اور جی کڑا کر کے مقابلہ کر ڈالو۔

37. یعنی اُن لوگوں کا دار و مدار دو باتوں پر تھا۔ ایک یہ کہ اگر جادوگر بھی موسیٰ کی طرح لاٹھیوں سے سانپ بنا کر دکھا دیں گے تو موسیٰ کا جادوگر ہونا مجمع عام میں ثابت ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ تعصبات کی آگ بھڑکا کر حکمران طبقے کو اندھا جوش دلانا چاہتے تھے اور یہ خوف انہیں دلا رہے تھے کہ موسیٰ کا غالب آجانا تمہارے ہاتھوں سے ملک نِکل جانے اور تمہارے مثالی (Ideal ) طریقِ زندگی کے ختم ہو جانے کا ہم معنی ہے۔ وہ ملک کے با اثر طبقے کو ڈرا رہے تھے کہ اگر موسیٰ کے ہاتھ اقتدار آگیا تو یہ تمہاری ثقافت ، اور یہ تمہارے آرٹ، اور یہ تمہارا حسین و جمیل تمدّن، اور یہ تمہاری تفریحات، اور یہ تمہاری خواتین کی آزادیاں(جن کے شاندار نمونے حضرت یوسف کے زمانے کی خواتین پیش کر چکی تھیں) غرض وہ سب کچھ جس کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں، غارت ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد تو نری ”ملّائیت“ کا دور دورہ ہوگا جسے برداشت کرنے سے مرجانا بہتر ہے۔

38. یعنی اِن کے مقابلے میں متحدہ محاذ پیش کرو۔ اگر اس وقت تمہارے درمیان آپس ہی میں پھوٹ پڑ گئی اور عین مقابلے کے وقت مجمع عام کے سامنے یہ ہچکچاہٹ اور سرگوشیاں ہونے لگیں تو ابھی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ سمجھ لیں گے کہ تم خود اپنے حق پر ہونے کا یقین نہیں رکھتے، بلکہ دلوں میں چور لیے ہوئے مقابلے پر آئے ہو۔

39. بیچ کی یہ تفصیل چھوڑ دی گئی کہ اِس پر فرعون کی صفوں میں اعتماد بحال ہو گیا اور مقابلہ شروع کرنے کا فیصلہ کر کے جادوگروں کو احکام دے دیے گئے کہ میدان میں اُتر آئیں۔

40. سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ فَلَمَّآ اَلْقَوْ ا سَحَرُوْٓ ا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْ ھُمْ،”جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا“(آیت ۱۱۶)۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا ، خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گئے تھے۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔

41. معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جونہی حضرت موسیٰ کی زبان سے ”پھینکو“ کا لفظ نکلا ، جادوگروں نے یکبارگی اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ان کی طرف پھینک دیں اور اچانک ان کو یہ نظر آیا کہ سینکڑوں سانپ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ اِس منظر سے فوری طور پر اگر حضرت موسیٰ نے ایک دہشت اپنے اندر محسُوس کی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ انسان بہر حال انسان ہی ہوتاہے ۔ خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، انسانیت کے تقاضے اُس سے منفک نہیں ہو سکتے۔ علاوہ بریں یہ بھی ممکن ہے کہ اُس وقت حضرت موسیٰ کو یہ خوف لاحق ہوا ہو کہ معجزے سے اس قدر مشابہ منظر دیکھ کر عوام ضرور فتنے میں پڑ جائیں گے۔

اس مقام پر یہ بات لائق ذکر ہے کہ قرآن یہاں اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ عا م انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متأ ثر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے ، یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے ، یا جادو کے اثر سے اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن فی الجملہ کچھ دیر کے لیے اس کے قویٰ پر یک گو نہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔ اس سے اُن لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف اُن روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرانے لگتے ہیں۔

42. ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آرہی تھیں ۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے اُن سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹھیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اُس جادو کے اثر کو باطل کردیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ سورۂ اَعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفُ مَا یَا فِکُوْنَ،”جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے اس کو وہ نگلے جا رہا تھا “۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا،” وہ نگل جائے گا اُس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے“۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نِگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی ، لاٹھی اور ہر رسی ، رسی بن کر پڑی رہ گئی۔

43. یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے، اُن کے فن کی چیز ہر گز نہیں ہے، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے میں گرے جیسے کسی نے اُٹھا اُٹھا کر اُن کو گرا دیا ہو۔

44. اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر ہو رہا ہے۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ، خالقِ زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسرِ عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے۔ بالفاظ ِ دیگر ، وہاں فرعون اور جادوگروں اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے، اور امتحان اِس بات کا ہورہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قِسم سے ہے یا اُس معجزے کی قِسم سے جو ربّ العالمین کی قدرت کےکرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادُو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ”ہم نے مان لیا ، موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے “، بلکہ انہیں فوراً یقین آگیا کہ موسیٰ واقعی اللہ ربّ العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اُٹھے کہ ہم اُس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمعِ عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے ، اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہُوا ہو گا ۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اِس اُمید پر کرایا تھا کہ کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سے سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے ، ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے ، تو موسیٰ کی ہوا اُکھڑ جائے گی۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اُسی پر اُلٹ پڑی ، اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اِس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ ان کے فن کی چیز نہیں ہے ، یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے۔

45. سورۂ اعراف میں الفاظ یہ ہیں اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْ ہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِ جُوْ ا مِنْھَا اَھْلَھَا،” یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے دارالسلطنت میں ملی بھگت کر کے کی ہے تاکہ سلطنت سے اس کے مالکوں کو بے دخل کر دو“۔ یہاں اس قول کی مزید تفصیل یہ دی گئی ہے کہ تمہارے درمیان صرف ملی بھگت ہی نہیں ہے، بلکہ معلوم یہ ہوتاہے کہ یہ موسیٰ تمہارا سردار اور گرُو ہے ، تم نے معجزے سے شکست نہیں کھائی ہے بلکہ اپنے استاد سے جادو میں شکست کھائی ہے، اور تم آپس میں یہ طے کر کے آئے ہو کہ اپنے استاد کا غلبہ ثابت کر کے اور اسے اُس کی پیغمبری کا ثبوت بنا کر یہاں سیاسی انقلاب برپا کر دو۔

46. یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں۔

47. صلیب یا سولی دینے کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا شہتیر سالے کر زمین میں گاڑ دیتے تھے ، یا کسی پرانے درخت کا تنا اس غرض کے لیے استعمال کرتے تھے اور اس کے اوپر کے سرے پر ایک تختہ آڑا کر کے باندھ دیتے تھے۔ پھر مجرم کو اوپر چڑھا کر اور اس کے دونوں ہاتھ پھیلا کر آڑے تختے کے ساتھ کیلیں ٹھونک دیتے تھے۔ اس طرح مجرم تختے کےبل لٹکا رہ جاتا تھا اور گھنٹوں سسک سسک کر جان دے دیتا تھا ۔ صلیب دیے ہوئے یہ مجرم ایک مدّت تک یونہی لٹکے رہنے دیے جاتے تھے تاکہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر سبق حاصل کریں۔

48. یہ ہری ہوئی بازی جیت لینے کے لیے فرعون کا آخری داؤ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جادوگروں کو انتہائی خوفناک سزا سے ڈرا کر ان سے یہ اقبال کرا لے کہ واقعی یہ اُن کی اور موسیٰ علیہ السّلام کی ملی بھگت تھی اور وہ ان سے مل کر سلطنت کے خلاف سازش کر چکے تھے۔ مگر جادوگروں کے عزم و استقامت نے اُس کا یہ داؤں بھی اُلٹ دیا۔ انہوں نے اتنی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو کر دنیا بھر کو یہ یقین دلا دیا کہ سازش کا الزام محض بگڑی ہوئی بات بنانے کے لیے ایک بے شرمانہ سیا سی چال کے طور پر گھڑا گیا ہے، اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے موسیٰ علیہ السّلام کی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں۔

49. دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے :”یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم اُن روشن نشانیوں کے مقابلے میں جو ہمارے سامنے آچکی ہیں ، اور اس ذات کے مقابلے میں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ، تجھے ترجیح دیں“۔

50. یہ جادوگروں کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا اضافہ ہے۔ اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ عبارت جادوگروں کے قول کا حصّہ نہیں ہے۔

51. یعنی موت اور زندگی کے درمیان لٹکتا رہے گا۔ نہ موت آئے گی کہ اس تکلیف اور مصیبت کا خاتمہ کردے، اور نہ جینے کا ہی کوئی لطف اسے حاصل ہو گا کہ زندگی کو موت پر ترجیح دے سکے۔ زندگی سے بیزار ہوگا، مگر موت نصیب نہ ہوگی۔ مرنا چاہے گا مگر مر نہ سکے گا۔ قرآن مجید میں دوزخ کے عذابوں کی جتنی تفصیلات دی گئی ہیں اُن میں سب سے زیادہ خوفناک صورت ِ عذاب یہی ہے جس کے تصوّر سے رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔