Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 77-89

وَلَقَدۡ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِىۡ فَاضۡرِبۡ لَهُمۡ طَرِيۡقًا فِى الۡبَحۡرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخۡشٰى‏ ﴿20:77﴾ فَاَتۡبَعَهُمۡ فِرۡعَوۡنُ بِجُنُوۡدِهٖ فَغَشِيَهُمۡ مِّنَ الۡيَمِّ مَا غَشِيَهُمۡؕ‏  ﴿20:78﴾ وَاَضَلَّ فِرۡعَوۡنُ قَوۡمَهٗ وَمَا هَدٰى‏ ﴿20:79﴾ يٰبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ قَدۡ اَنۡجَيۡنٰكُمۡ مِّنۡ عَدُوِّكُمۡ وَوٰعَدۡنٰكُمۡ جَانِبَ الطُّوۡرِ الۡاَيۡمَنَ وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكُمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰى‏ ﴿20:80﴾ كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ وَلَا تَطۡغَوۡا فِيۡهِ فَيَحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبِىۡ​ۚ وَمَنۡ يَّحۡلِلۡ عَلَيۡهِ غَضَبِىۡ فَقَدۡ هَوٰى‏ ﴿20:81﴾ وَاِنِّىۡ لَـغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا ثُمَّ اهۡتَدٰى‏  ﴿20:82﴾ وَمَاۤ اَعۡجَلَكَ عَنۡ قَوۡمِكَ يٰمُوۡسٰى‏ ﴿20:83﴾ قَالَ هُمۡ اُولَاۤءِ عَلٰٓى اَثَرِىۡ وَ عَجِلۡتُ اِلَيۡكَ رَبِّ لِتَرۡضٰى‏  ﴿20:84﴾ قَالَ فَاِنَّا قَدۡ فَتَـنَّا قَوۡمَكَ مِنۡۢ بَعۡدِكَ وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِىُّ‏  ﴿20:85﴾ فَرَجَعَ مُوۡسَىٰۤ اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا  ۙ قَالَ يٰقَوۡمِ اَلَمۡ يَعِدۡكُمۡ رَبُّكُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا  ۙ اَفَطَالَ عَلَيۡكُمُ الۡعَهۡدُ اَمۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ يَّحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِىْ‏ ﴿20:86﴾ قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَـفۡنَا مَوۡعِدَكَ بِمَلۡكِنَا وَلٰـكِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِيۡنَةِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلۡقَى السَّامِرِىُّ ۙ‏ ﴿20:87﴾ فَاَخۡرَجَ لَهُمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوۡا هٰذَاۤ اِلٰهُكُمۡ وَاِلٰهُ مُوۡسٰى  فَنَسِىَ‏ ﴿20:88﴾ اَفَلَا يَرَوۡنَ اَلَّا يَرۡجِعُ اِلَيۡهِمۡ قَوۡلًا ۙ وَّلَا يَمۡلِكُ لَهُمۡ ضَرًّا وَّلَا نَفۡعًا‏ ﴿20:89﴾

77 - 52 ہم نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنالے 53 ، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے)ڈر لگے۔ 78 - پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا، اور پھر سمندر اُن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ 54 79 - فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ 55 80 - 56 اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب 57 تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا 58 اور تم پر من و سلویٰ اُتارا 59 81 - ۔۔۔۔ کھاوٴ ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹُوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ 82 - البتہ جو توبہ کر لےاور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ 60 83 - 61 اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ ؟ 62 84 - اُس نے عرض کیا ”وہ بس میرے پیچھے آہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آگیا ہوں اے میرے ربّ، تاکہ تُو مجھ سے خوش ہو جائے۔“ 85 - فرمایا ”اچھا، تو سُنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں دال دیا اور سامری 63 نے اُنہیں گمراہ کر ڈالا۔“ 86 - موسیٰؑ سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اُس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ 64 کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ 65 یا تم اپنے ربّ کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟“ 66 87 - انہوں نے جواب دیا ”ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا“ 67 ۔۔۔۔ 68 پھر اِسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا 88 - اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مُورت بنا کر لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اُٹھے”یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ اِسے بھُول گیا۔“ 89 - کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے؟ ؏ ۴


Notes

52. بیچ میں اُن حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد مصر کے طویل زمانہ ٔ قیام میں پیش آئے۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۵ – ۱۶، سورۂ یونس رکوع ۹، سورۂ مومن رکوع ۳ تا ۵، اور سورۂ زُخرف رکوع ۵۔

53. اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرمادی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو ( جن کے لیے ” میرے بندوں“ کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے) مصر کے ہر حصّے سے ہجرت کے لیے نِکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے۔ اُس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھُلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالبًا ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا کی طرف نکل جائیں۔ لیکن اُدھر سے فرعون ایک لشکرعظیم لے کر تعاقُب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آپہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہُوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر ِ فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل گھِر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اِضْرِبْ بعَصَاکَ الْبَحْرَ، ”اپنا عصا سمندر پر مار“ فَا نْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَا اطَّوْدِ الْعَظیْمِ،” فوراً سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا ۔“ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نِکل آیا، بلکہ بیچ کا یہ حصّہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا نہیں ہوجاتا ، اور بیچ کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ نمبر ۴۷)۔

54. سورۂ شُعَراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کے گزرتے ہی فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر کے اس درمیانی راستے میں اتر آیا (آیات ۶۴ – ۶۶) ۔ یہاں بیان کیا گیا ہے کہ سمندر نے اس کو اور اس کے لشکر کو دبوچ لیا ۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ہے بنی اسرائل سمندر کے دوسرے کنارے پر سے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ (آیت ۵۰) اور سورہ ٔیونس میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون پکار اُٹھا اٰ مَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ آ اِسْرَآئِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ،” میں مان گیا کہ کوئی خدا نہیں ہے اس خدا کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ، اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں۔“ مگر اس آخری لمحہ کے ایمان کو قبول نہ کیا گیا اور جواب مِلا اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ، فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْ نَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰ یَۃً،”اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فساد کیے چلا گیا ۔ اچھا، آج ہم تیری لاش کو بچا ئے لیتے ہیں تاکہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا رہے“(آیات ۹۰ – ۹۲)۔

55. بڑے لطیف انداز میں کفار ِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی نہ تھی۔

اِس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل کے بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ اُن لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جائے جو کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سےنقل کر لیے گئے ہیں۔ بائیبل کی کتاب خروج(Exodus ) میں اِس قصّے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسبِ ذیل اجزاء قابل ِ توجہ ہیں:

(۱) باب۴، آیت ۲ – ۵ میں بتایا گیا ہے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت ۱۷ میں انہی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ”تُو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا“۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب ۷ سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔

(۲) باب ۵، میں فرعون سے حضرت موسی ٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اُس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر اُن کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ” خداوند کون ہے کہ میں اُس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا“۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اِس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ ”عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے“۔ (باب ۵ – آیت ۲ – ۳)۔

(۳) جادوگروں سے مقابلے کی پوری داستان بس اِن چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے:

”اور خدا وند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جائے۔ اور موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگروں کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا ۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی لاٹھی سامنے ڈالی اور وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی“۔ (باب ۷۔ آیت ۸ – ۱۲)۔

اِس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جائے کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بُری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کےدن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا ، اور پھر شکست کے بعد جادوگروں کا ایمان لانا ، جو قصّے کی اصل جان تھا ، سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔

(۴) قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہےکہ مطالبہ صرف یہ تھا”ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیے قربانی کریں“۔ (باب ۵ – آیت ۳) ۔

(۵) مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب ۱۱ سے ۱۴ تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات ، اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب ۱۴ کی آیات ۱۵ – ۱۶ میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ”تُو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اُٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصّے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل جائیں گے“۔ لیکن آگے چل کر آیت ۲۱ – ۲۲ میں کہا جاتا ہے کہ ”پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصّے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا“۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ؟ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا ۔ کیا فطری طریقے سےہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟

تلمود کا بیان نسبتًا بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ ایک جگہ براہِ راست علمِ وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جارہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینہ بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو:

The Talmud Selections. H. Polano. PP. 150-54,

56. سمندر کو عبور کرنے سے لے کر کوہِ سینا کے دامن میں پہنچنے تک کی داستان بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے ۔ اس کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۶ – ۱۷ میں گزر چکی ہے۔ اور وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ مصر سے نکلتے ہی بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے ایک مندر کو دیکھ کر اپنے لیے ایک بناوٹی خدا مانگ بیٹھے تھے ( تفہیم القرآن ۔ جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ نمبر ۹۸)۔

57. یعنی طُور کے مشرقی دامن میں۔

58. سورۂ بقرہ رکوع ۶، اور سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا کیے گئے۔

59. “من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل البقرہ، حاشیہ نمبر ۷۳۔ الاعراف ، حاشیہ نمبر ۱۱۹۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کےبعد جب بنی اسرائیل دشتِ سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آگئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا ، اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا( خروج، باب ۱۶۔ گنتی، باب ۱۱۔ آیت ۷ – ۹ ۔ یشوع، باب ۵، آیت ۱۲)۔ کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے:

”اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گو ل چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں ، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اُسے دیکھ کر آپس میں کہنےلگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے“(باب ۱۶ – آیت ۱۳ – ۱۵)۔

”اور بنی اسرائیل نے اُس کا نام مَن رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے بنے ہوئے پوئے کی طرح تھا “(آیت ۳۱) ۔

گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے:

”لوگ اِدھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اُسے ہانڈیوں میں اُبال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ مَن بھی گرتا تھا“(باب ۱۱، آیت ۸ – ۹) ۔

یہ بھی ایک معجزہ تھا ۔ کیونکہ ۴۰ برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے ، نہ مَن ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے اُن علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے ۴۰ سال تک دشت نوردی کی تھی۔ مَن اُن کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے مَن کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔

60. یعنی مغفرت کے لیے چار شرطیں ہیں۔ اوّل توبہ، یعنی سرکشی و نافرمانی یا شرک و کفر سے باز آجانا۔ دوسرے، ایمان، یعنی اللہ اور رسول اور کتاب اور آخرت کو صدق ِ دل سے مان لینا۔ تیسرے عملِ صالح ، یعنی اللہ اور رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا ۔ چوتھے اہتداء، یعنی راہِ راست پر ثابت قدم رہنا اور پھر غلط راستے پر نہ جا پڑنا۔

61. یہاں سے سلسلہء بیان اُس واقعہ کے ساتھ جُڑتا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھیرو ، اور چالیس دن کی مدّت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا۔

62. اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر حضرت موسیٰ اپنے ربّ کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے ۔ طور کی جانبِ اَیمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی۔ اُس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں درج ہیں۔ حضرت موسیٰ کا دیدارِ الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلّی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بےہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا ،یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصّہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔ اس کے بیان سے مقصود کفارِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بُت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اُٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جا یا کرتے ہیں۔

63. “یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اِس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام اُن اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیری کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ، معاذ اللہ ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولتِ اسرائیل کا دارالسلطنت”سامریہ“ اِس واقعہ کے کئی صدی بعد سن ۹۲۵ ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہو ا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ”سامریوں“ کے نام سے شہرت پائی۔ اُن کا خیال ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس بات کی سُن گُن پالی ہو گی ، اس لیے اُنہوں نے لے جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اوریہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ اِسی طرح کی باتیں اِن لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسو یرس (شاہ ایران) کے درباری امیر ”ہامان“ سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے ۔ شاید ان مدعیانِ علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہُوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعًا کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے دور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی ، اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے ، یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ دولتِ اسرائیل کے فرمانروا عمری نے ایک شخص”سمر“ نامی سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین ۱، باب ۱۶ – آیت ۲۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سےپہلے ”سمر“ نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔

64. ”اچھا وعدہ نہیں کیا تھا“بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ متن میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے ربّ نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا ، غلامی سے نجات دی، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا، تمہارے لیے اِن صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندبست کیا ۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطاکر نے کا جو وعدہ کیا گیا تھا ، کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا؟

65. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ”کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہوگا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے، کیا اُن کو کچھ بہت زیادہ مدّت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سر مست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کے وفا ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو۔

66. اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم اپنے نبی سے کرتی ہے ۔ اُس کے اتباع کا وعدہ۔ اس کی دی ہوئی ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ۔

67. یہ اُن لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی ، نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم بے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے۔

”لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے“، اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری بھاری زیورات پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم پر بار ہو گئے تھے اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھر انے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے تھے اور اِس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ”ہجرت“ کے لیے چل کھڑا ہوا تھا۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو، بلکہ یہ کارِ خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا ، اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہو تا ہے:

”خدا نے موسیٰ سے کہا ۔۔۔۔۔۔ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور اُن کو کہہ ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے“۔ (باب ۳ ۔ آیت ۱۴ تا ۲۲)

”اور خدا وند نے موسیٰ سے کہا ۔۔۔۔۔۔ سو اب تُو لوگوں کے کان میں یہ بات ڈال دے کہ اُن میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے ، اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا“(باب ۱۱ ۔ آیت ۲ – ۳)

”اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کےکہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے اِن لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزّت بخشی کہ جو کچھ اِنہوں نے مانگا اُنہوں نے دیا، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا“۔ (باب ۱۲ – آیت ۳۵ – ۳۶)

افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اِس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اِسی لُوٹ کا بوجھ تھا۔

آیت کے دوسرے ٹکڑے ”اور ہم نے بس ان کوپھینک دیا تھا“ کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آگئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہوگی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں ، اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے، پھر اِن کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے ، تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر ان کو لاد کر چلا جا سکے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا۔

68. یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب”پھینک دیا تھا“ پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے۔ اس سے صورتِ واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بےخبر ، اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کر تے چلے گئے، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی ، اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نِکلتی تھی۔ اِس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے۔