Tafheem ul Quran

Surah 20 Taha, Ayat 90-104

وَلَـقَدۡ قَالَ لَهُمۡ هٰرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلُ يٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِهٖ​ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ وَاَطِيۡعُوۡۤا اَمۡرِىْ‏ ﴿20:90﴾ قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَيۡهِ عٰكِفِيۡنَ حَتّٰى يَرۡجِعَ اِلَيۡنَا مُوۡسٰى‏  ﴿20:91﴾ قَالَ يٰهٰرُوۡنُ مَا مَنَعَكَ اِذۡ رَاَيۡتَهُمۡ ضَلُّوۡٓا ۙ‏ ﴿20:92﴾ اَلَّا تَتَّبِعَنِ​ؕ اَفَعَصَيۡتَ اَمۡرِىْ‏ ﴿20:93﴾ قَالَ يَابۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡيَتِىۡ وَلَا بِرَاۡسِىۡ​ۚ اِنِّىۡ خَشِيۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَيۡنَ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِىْ‏  ﴿20:94﴾ قَالَ فَمَا خَطۡبُكَ يٰسَامِرِىُّ‏ ﴿20:95﴾ قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ يَـبۡصُرُوۡا بِهٖ فَقَبَـضۡتُ قَبۡضَةً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتۡ لِىۡ نَفۡسِى‏ ﴿20:96﴾ قَالَ فَاذۡهَبۡ فَاِنَّ لَـكَ فِى الۡحَيٰوةِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ​ وَاِنَّ لَـكَ مَوۡعِدًا لَّنۡ تُخۡلَفَهٗ​ ۚ وَانْظُرۡ اِلٰٓى اِلٰهِكَ الَّذِىۡ ظَلۡتَ عَلَيۡهِ عَاكِفًا​ ؕ لَّـنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَـنَنۡسِفَنَّهٗ فِى الۡيَمِّ نَسۡفًا‏ ﴿20:97﴾ اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ​ؕ وَسِعَ كُلَّ شَىۡءٍ عِلۡمًا‏ ﴿20:98﴾ كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيۡكَ مِنۡ اَنْۢبَآءِ مَا قَدۡ سَبَقَ​ ۚ وَقَدۡ اٰتَيۡنٰكَ مِنۡ لَّدُنَّا ذِكۡرًا ​ ۖ​ ۚ‏ ﴿20:99﴾ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡهُ فَاِنَّهٗ يَحۡمِلُ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وِزۡرًا ۙ‏ ﴿20:100﴾ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهِ​ ؕ وَسَآءَ لَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ حِمۡلًا ۙ‏ ﴿20:101﴾ يَّوۡمَ يُنۡفَخُ فِى الصُّوۡرِ​ وَنَحۡشُرُ الۡمُجۡرِمِيۡنَ يَوۡمَـئِذٍ زُرۡقًا​ ۖ ​ۚ‏ ﴿20:102﴾ يَّتَخَافَـتُوۡنَ بَيۡنَهُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا‏ ﴿20:103﴾ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ يَقُوۡلُ اَمۡثَلُهُمۡ طَرِيۡقَةً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا يَوۡمًا‏ ﴿20:104﴾

90 - ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے)پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ”لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا ربّ تو رحمٰن ہے، پس تم میرے پیروی کرو اور میری بات مانو۔“ 91 - مگر اُنہوں نے اُس سے کہہ دیا کہ ”ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ واپس نہ آجائے۔“ 69 92 - موسیٰؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارونؑ کی طرف پلٹا اور )بولا” ہارونؑ ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا 93 - کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟“ 70 94 - ہارونؑ نے جواب دیا ”اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، 71 مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تُو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھُوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔“ 72 95 - موسیٰؑ نے کہا” اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟“ 96 - اس نے جواب دیا ”میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھا لی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا۔“ 73 97 - موسیٰؑ نے کہا ”اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پُکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھُونا۔ 74 اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تُو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ 98 - لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے۔“ 99 - اے محمدؐ، 75 اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک”ذِکر“ (درسِ نصیحت)عطا کیا ہے۔ 76 100 - جو کوئی اِس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے روز سخت بارِ گناہ اُٹھائے گا، 101 - اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے، اور قیامت کے دن اُن کےلیے (اِس جرم کی ذمّہ داری کا بوجھ)بڑا تکلیف دہ بوجھ ہوگا، 77 102 - اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا 78 اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے)پتھرائی ہوئی ہوں گی، 79 103 - آپس میں چُپکے چُپکے کہیں گے کہ دُنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے 80 104 - ۔۔۔۔ 81 ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ)اُس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہوگا وہ کہے گا کہ نہیں، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی ۔ ؏ ۵


Notes

69. بائیبل اِس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہِ عظیم انہی سے سرزد ہو ا تھا:

”اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اتر نے میں دیر لگا ئی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لیے دیوتا بنادے جو ہمارے آگے چلے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اِس مرد موسیٰ کو ، جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا، کیا ہوگیا۔ ہارون نے اُن سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ہارون کے پاس لے آئے۔ اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنا یا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل ، یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ خداوند کے لیے عید ہو گی“ (خروج ، باب ۳۲ – آیت ۱ – ۵)

بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اِس وجہ سے مشہور ہوئی ہو کہ سامری کا نام بھی ہارون ہی ہو، اور بعد کے لوگوں نے اِس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہو۔ لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے، بچھڑے کو خدا اُن کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اِس داغ کو صاف کر کے قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ اُلٹا قصور کیا ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال۔ اور ان کو نظر نہیں آتا کہ اِسی باب میں چند سطر آگے چل کر خود بائیبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کر رہی ہے۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے بعد بنی لاوِی کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہِ عظیم کیا ہے اُنہیں قتل کیا جائے، اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ سے اپنے اُس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گوسالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑ دیے گئے؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتلِ عام سے کس طرح معاف کیا جا سکتا تھا؟ کیا بنی لاوِی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ ، ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے خداوند کے پاس جا کر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کر دے، ورنہ میرا نام اپنی کتاب میں سے مٹا دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ” جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا“۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا ۔ بلکہ اِس کے برعکس ان کو اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب ، یعنی بنی لاوِی کی سرداری اور مَقدِس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا (گنتی ، باب ۱۸ – آیت ۱ – ۷)۔ کیا بائیبل کی یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کر رہی ہے؟

70. حکم سے مراد وہ حکم ہے جو پہاڑ پر جاتے وقت ، اور اپنی جگہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی سرداری سونپتے وقت حضرت موسیٰ نے دیا تھا ۔ سورۂ اعراف میں اسے اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ، ”اور موسیٰ نے (جاتے ہوئے) اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میری جانشینی کرو اور دیکھو ، اصلاح کرنا ، مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرنا“۔ (آیت ۱۴۲)۔

71. ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے ، اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔

72. حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع رہنا اس کے راہِ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اتحاد چاہے وہ شرک ہی کیوں نہ ہو، افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۰ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ اِبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ ا سْتَضْعَفُوْ نِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ زصلے فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآ ءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْ مِ الظّٰلِمِیْنَ۔” میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ۔ پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے او ر اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر “۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی ، مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تُل گئے۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے ، اور وہ بعد میں آکر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت ِ حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا ، میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سورۂ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی۔

73. اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے۔

ایک گروہ ، جس میں قدیم مفسرین اور قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے ، اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ ”سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور ان کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اُٹھا لی تھی ، اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بُت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی“۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا کہ فی الواقع ایسا ہوا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی ، اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے۔

دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ ”مجھے رسول، یعنی حضرت موسیٰ میں، یا اُن کے دین میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کی ، مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا“۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی ، پھر امام رازی نےا س کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اب طرزِ جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف محاورے اور روز مرّہ سے واقف ہو، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت ِ زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سُن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات بیان کر رہے ہیں۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں اس سے مراد لیےجاتے ہوں ، اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہر گز اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا ، زباں دانی تو نہیں ہو سکتا، البتہ سخن سازی کا کرتب ضرور مانا جا سکتا ہے ۔ اس قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود اِن حضرات کی اردو تحریروں میں ، یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانےشروع کر دے ، تو شاید اپنے کلام کی دوچار ہی تاویلیں سُن کر یہ حضرات چیخ اُٹھیں ۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اُس وقت کی جاتی ہے جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے۔

اس طرزِ فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اِس سلسلۂ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکرو فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پُر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے ۔ رسول سے مراد ممکن ہے کہ جبریل ہی ہوں، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے ۔ لیکن اگریہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا ، تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کوذہنی رشوت دینی چاہتا تھا ، تاکہ وہ اسے اپنے نقشِ قدم کی مٹی کا کرشمہ سمجھ کر پھُول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لیں۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکار ا ہے اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پُر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا۔

74. یعنی صر ف یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لیے معاشرے سے اس کے تعلقات توڑ دیے گئے اور اسے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا ، بلکہ یہ ذمہ داری بھی اسی پر ڈالی گئی کہ ہر شخص کو وہ خود اپنے اچھوت پن سے آگاہ کر ے اور دور ہی سے لوگوں کو مطلع کرتا رہے کہ میں اچھوت ہوں، مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ بائیبل کی کتاب احبار میں کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں اُن میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ :

”اور جو کوڑھی اس بلا میں مبتلا ہو اُس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلّا چلّا کر کہے ناپاک ناپاک۔ جتنے دنوں تک وہ اس بلا میں مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک۔ پس وہ اکیلا رہے، اس کا مکان لشکر گاہ کے باہر ہو“۔ (باب ۱۳۔ آیت ۴۵ – ۴۶)

اس سے گمان ہوتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر اس کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہو گا، یاپھر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہو گی کہ جس طرح جسمانی کوڑھ کا مریض لوگوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اُسی طرح اِس اخلاقی کوڑھ کے مریض کو بھی الگ کر دیا جائے، اور یہ بھی کوڑھی کی طرح پکار پکار کر ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہے کہ میں ناپاک ہوں ، مجھے نہ چھونا۔

75. موسیٰ علیہ السّلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رُخ اُس مضمون کی طرف مڑتا ہے جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی اُن ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ شروع ہو گیا تھا۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آجائے گی کہ سورہ کا اصل موضوع ِ بحث کیا ہے، بیچ میں قصۂ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے، اور اب قصّہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے۔

76. یعنی یہ قرآن ، جس کے متعلق آغازِ سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی اَن ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھائے ایک مشقت میں مبتلا کردینے کےلیے نازل نہیں کیا گیا ہے، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت (تذکرہ) ہے ہر اُس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو۔

77. اس میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص اس درسِ نصیحت ، یعنی قرآن سے منہ موڑے گا اور اس کی ہدایت و رہنمائی قبول کرنے سے انکار کرے گا ، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بھیجنے والے خدا کا کچھ نہ بگاڑ ے گا۔ اُس کی یہ حماقت دراصل اس کی خود اپنے ساتھ دشمنی ہو گی۔ دوسری بات یہ بتائی گئی کہ کوئی شخص ، جس کو قرآن کی یہ نصیحت پہنچے اور پھر وہ اسے قبول کرنے سے پہلو تہی کرے ، آخرت میں سزا پانے سے بچ نہیں سکتا۔ آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ کسی قوم ، کسی ملک، کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ جب تک یہ قرآن دنیا میں موجود ہے، جہاں جہاں ، جس جس ملک اور قوم کے ، جس شخص کو بھی یہ پہنچے گا ، اس کے لیے دو ہی راستے کھلے ہوں گے۔ تیسرا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ یا تو اس کو مانے اور اس کی پیروی اختیار کرے۔ یا اس کو نہ مانے اور اس کی پیروی سے منہ موڑ لے۔ پہلا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام آگے آرہا ہے۔ اور دوسرا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام یہ ہے جو اِس آیت میں بتا دیا گیا ہے۔

78. صُور، یعنی نر سنگھا، قرناء، یا بوق۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جاتا ہے، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہٖ ان محدود معنوں میں لے لیں، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کےلیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے مِلتی جُلتی ہو۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نر سنگھے کی سی ہو گی۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اُٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے ۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، النمل، حاشیہ نمبر ۱۰۶)۔

79. اصل میں لفظ”زُرْقًا“ استعمال ہواہے ، جو اَزْرَق کی جمع ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ جو خود اَزْرق (سفیدی مائل نیلگوں) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے ۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ازرق العین (کرنجی آنکھوں والے) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدّتِ ہول سے ان کے دیدے پتھرا جائیں گے۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید ہو جاتا ہے۔

80. دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ” موت کے بعد سے اِس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے“۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی ، اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہو گا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے ۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ o قَالُوْ ا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَادِّیْنَ۔”اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصّہ رہے ہوں گے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے“ (المومنون آیات ۱۱۲ – ۱۱۳)۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْ ا غَیْرَ سَا عَۃٍ کَذٰلِکَ کَا نُوْ ا یُؤْفَکُوْنَo وَقَالَ الَّذیْنَ اُوْتُوْ ا الْعِلْمَ وَ ا لْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo ”اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے، مگر تم جانتے نہ تھے“(الروم – آیات ۵۵ – ۵۶)۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی اور برزخ کی زندگی ، دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے ۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کفِ افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد ِ موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالمِ آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ ان کے ذہن میں اُترا ہی نہ تھا۔ یہی تصوّرات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدا ر ہوں گے اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نر سنگھے کی آواز پر مارچ کرتے ہوئے پائیں گے تو وہ شدید گبھراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بے ہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ سے دوچار ہونے کے بعد سے اِس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا ۔ اُن کی کھوپڑی میں اُس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے ہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اُڑا دیا کرتے تھے ۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا یہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں ، اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے والے صاحب لوگ صور کی آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں۔

81. یہ جملہ ٔ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سامعین کے اس شبہہ کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخر اُس وقت میدانِ حشر میں بھاگتے ہوئے لوگ چپکے چپکے جو باتیں کریں گے وہ آج یہاں کیسے بیان ہو رہی ہیں۔