Tafheem ul Quran

Surah 21 Al-Anbya, Ayat 1-10

اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمۡ وَهُمۡ فِىۡ غَفۡلَةٍ مُّعۡرِضُوۡنَ​ۚ‏ ﴿21:1﴾ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ ذِكۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡهُ وَهُمۡ يَلۡعَبُوۡنَۙ‏ ﴿21:2﴾ لَاهِيَةً قُلُوۡبُهُمۡ​ ؕ وَاَسَرُّوا النَّجۡوَى​ۖ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ​ۖ  هَلۡ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ​ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَاَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ‏  ﴿21:3﴾ قٰلَ رَبِّىۡ يَعۡلَمُ الۡقَوۡلَ فِى السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ​ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿21:4﴾ بَلۡ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۢ بَلِ افۡتَـرٰٮهُ بَلۡ هُوَ شَاعِرٌ ​ ۖۚ فَلۡيَاۡتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرۡسِلَ الۡاَوَّلُوۡنَ‏ ﴿21:5﴾ مَاۤ اٰمَنَتۡ قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ اَهۡلَـكۡنٰهَا​ۚ اَفَهُمۡ يُؤۡمِنُوۡنَ‏  ﴿21:6﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ​ فَسۡـئَلُوۡۤا اَهۡلَ الذِّكۡرِ اِنۡ كُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿21:7﴾ وَمَا جَعَلۡنٰهُمۡ جَسَدًا لَّا يَاۡكُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوۡا خٰلِدِيۡنَ‏  ﴿21:8﴾ ثُمَّ صَدَقۡنٰهُمُ الۡوَعۡدَ فَاَنۡجَيۡنٰهُمۡ وَمَنۡ نَّشَآءُ وَاَهۡلَكۡنَا الۡمُسۡرِفِيۡنَ‏ ﴿21:9﴾ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكُمۡ كِتٰبًا فِيۡهِ ذِكۡرُكُمۡ​ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏  ﴿21:10﴾

1 - قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، 1 اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ 2 2 - ان کے پاس جو تازہ نصیحت ہی ان کے ربّ کی طرف سے آتی ہے 3 اُس کو بے تکلف سُنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں، 4 3 - دل اُن کے ( دوسری ہی فکروں میں)منہمک ہیں۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ ”یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاوٴ گے؟“ 5 4 - رسُولؐ نے کہا ، میرا ربّ ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔ 6 5 - وہ کہتے ہیں ”بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں ، بلکہ یہ اِس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ 7 ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسُول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔“ 6 - حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی۔ اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟ 8 7 - اور اے محمدؐ ، تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسُول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ 9 تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو۔ 10 8 - اُن رسُولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ 9 - پھر دیکھ لو کہ آخر کار ہم نے اُن کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے، اور اُنہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔ 11 10 - لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ 12 ؏۱


Notes

1. مراد ہے قریب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دَور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ؐ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا بُعِثتُ انا وَ السَّا عَۃُ کَھَا تَیْنِ ،” میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت اِن دو انگلیوں کی طرح ہیں۔“ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جا ؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے۔

2. یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہونا ہے اور نہ اُس پیغمبر کی بات سُنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

3. یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

4. وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے ، اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی کا کھیل ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سُنتے ہیں۔

5. ”پھنسے جاتے ہو“ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفارِ مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مقابلہ کر نے کی بڑی فکر لاحق تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اِس میں وہ نِرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہوں اور ہماری بہ نسبت اِس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جو ل رکھو ، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔

جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ”سحر“ کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی سن ۱۵۲ ھ) نے بیان کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبِیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خوار کے باپ) نے سردارانِ قریش سے کہا، اگر آُ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابرِ قریش سخت پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا ابو الولید ، تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور ؐ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا،” بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزّت حاصل تھی ، تم خود جانتے ہو، اور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبُودوں کی بُرائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مِل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں “۔ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپؐ نے فرمایا” ابو الولید ، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں یا اور کچھ کہنا ہے؟ “ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اب میری سُنو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، حٰمٓ ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپؐ سورۂ حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا ، اور پھر سر اُٹھا کر عُتبہ سے فرمایا،”ابو الولید ، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سُن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام“۔ عتبہ یہاں اُٹھ کر سردارانِ قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دُور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا”خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوُا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا“۔ اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا ،” کہو ابوالولید، کیا کر آئے ہو“؟ اس نے کہا” خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سُنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سُنا تھا۔ وللہ یہ شعر نہیں ہے ، نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اے معشر قریش ، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سُنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی ۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا ، دوسروں پر ہوگا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہو گی اور اس کی عزّت تمہاری عزّت “۔ لوگوں نے کہا”واللہ ، ابو الولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا “۔ اس نے کہا” یہ میری رائے ہے ، اب تم جانو اور تمہارا کام“۔ (ابنِ ہشام، جلد اوّل، ص ۳۱۳ – ۳۱۴) ۔ بیہقی نے اِس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سےایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ؐ سورۂ حٰم السجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے کہ فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَا عِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔

”دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلۂ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اُونٹ لے کر مکّہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اُونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَاشی نے تنگ آکر ایک روز حرمِ کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمعِ عام میں فریاد شروع کر دی ۔ دوسرے طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ سردارانِ قریش نے اس شخص سے کہا کہ”ہم کچھ نہیں کر سکتے، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوادیں گے“۔ اراشی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا”آج لطف آئے گا“۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپؐ اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا”کون“؟ آپؐ نے جواب دیا ”محمد ؐ“۔ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپؐ نے اس سے کہا” اس شخص کا حق ادا کر دو“۔ اس نے جواب میں کوئی چون و چرا نہ کی ، اندر گیا اور اس کے اُونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سُنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے کہ جو کبھی نہ دیکھا تھا ، حَکَم بن ہِشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد ؐ کو دیکھتے ہی اُس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمد ؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے۔(ابن ہشام ، جلد ۲، ص ۲۹ – ۳۰)

یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔

6. یعنی رسول نے کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے اور سرگوشیوں کی اس مہم (Whispering Campaign ) کا جواب اس کے سوا نہ دیا کہ ”تم لوگ جو کچھ باتیں بناتے ہو سب خدا سنتا اور جانتا ہے ، خواہ زور سے کہو، خوا ہ چپکے چپکے کانوں میں پھونکو“۔ وہ کبھی بے انصاف دشمنوں کے مقابلے میں ترکی بہ ترکی جواب دینے پر نہ اُتر آیا۔

7. ”اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شرو ع کی جائے اور ہر اس شخص کو ، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بدگمان کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی ، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبر دار کرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے ، اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ رکھا ہے، اور کہتا ہے کہ خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے ، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ تخیلات اور تُک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلامِ الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اورجچی تُلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہُوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدّت ہی کے اندر ہو گئی۔ ہر شخص کے دل میں ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سُنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔

اس کی دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمرو دَوسی کا قصہ ہے جسے ابن اسحاق نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ دَوس کا ایک شاعر تھا ۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کی چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بدگمان ہو گیا اور میں نے یہ طے کر لیا کہ آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے ۔ میرے کانوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسُوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ کیا کہتا ہے۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آ پ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سُنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ہیں۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے ، آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں مجھ کر قرآن کا ایک حصہ سُنایا اور میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعتِ اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوۂ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستّر اسّی گھرانے مسلمان ہو گئے۔ (ابن ہشام، جلد ۲، ص ۲۲ – ۲۴)

ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سردارانِ قریش اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارِث نے تقریر کی کہ ” تم لوگ محمد ؐ کامقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑ ھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے کو آگئے ، تم کہتے ہو یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے ساحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے ، ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سُنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں ان کا ہمیں علم ہے ۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے ، شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اُس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے ، مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں؟ اے سردارانِ قریش ، کچھ اَور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو“۔ اس کے بعد اُس نے یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفند یار کے قصّے لا کر پھیلا ئے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا اور خود نَضر نے داستان گوئی شروع کر دی۔ (ابن ہشام ، جلد اوّل ، ص ۳۲۰ – ۳۲۱)

8. اس مختصر سے جملے میں نشانی کی مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسُولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو ، مگر یہ بھُول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ اُن نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے۔ تیسرے یہ کہ تمہاری منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں؟

9. یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ”یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے“۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے۔ جواب دیا گیا ہے کہ پہلے زمانے کے جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے ، وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہو ئے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، یٰسین ، حاشیہ نمبر ۱۱)۔

10. یعنی یہ یہودی ، جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ پیچ سکھایا کرتے ہیں، انہی سے پوچھ لو کہ موسیٰ اور دوسرے انبیاء ِ بنی اسرائیل کون تھے۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق؟

11. یعنی پچھلی تاریخ کا سبق صرف اتنا ہی نہیں بتاتا کہ پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ انسان تھے ، بلکہ یہ بھی بتاتا ہےکہ ان کی نصرت و تائید کے ، اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو ہلاک کر دینے کے، جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ سب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ۔ اب تم اپنا انجام خود سوچ لو۔

12. یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے، یہ ساحری ہے ، یہ پراگندہ خواب ہیں، یہ من گھڑت افسانے ہیں، وغیرہ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے ۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملاتِ زندگی زیرِ بحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھا یا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اِس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو؟