Tafheem ul Quran

Surah 21 Al-Anbya, Ayat 11-29

وَكَمۡ قَصَمۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍ كَانَتۡ ظَالِمَةً وَّاَنۡشَاۡنَا بَعۡدَهَا قَوۡمًا اٰخَرِيۡنَ‏ ﴿21:11﴾ فَلَمَّاۤ اَحَسُّوۡا بَاۡسَنَاۤ اِذَا هُمۡ مِّنۡهَا يَرۡكُضُوۡنَؕ‏ ﴿21:12﴾ لَا تَرۡكُضُوۡا وَ ارۡجِعُوۡۤا اِلٰى مَاۤ اُتۡرِفۡتُمۡ فِيۡهِ وَمَسٰكِنِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُسۡـئَلُوۡنَ‏ ﴿21:13﴾ قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿21:14﴾ فَمَا زَالَتۡ تِّلۡكَ دَعۡوٰٮهُمۡ حَتّٰى جَعَلۡنٰهُمۡ حَصِيۡدًا خٰمِدِيۡنَ‏  ﴿21:15﴾ وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا لٰعِبِيۡنَ‏ ﴿21:16﴾ لَوۡ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نَّـتَّخِذَ لَهۡوًا لَّا تَّخَذۡنٰهُ مِنۡ لَّدُنَّاۤ  ۖ  اِنۡ كُنَّا فٰعِلِيۡنَ‏ ﴿21:17﴾ بَلۡ نَـقۡذِفُ بِالۡحَـقِّ عَلَى الۡبَاطِلِ فَيَدۡمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ​ ؕ وَلَـكُمُ الۡوَيۡلُ مِمَّا تَصِفُوۡنَ‏ ﴿21:18﴾ وَلَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَمَنۡ عِنۡدَهٗ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِهٖ وَلَا يَسۡتَحۡسِرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿21:19﴾ يُسَبِّحُوۡنَ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفۡتُرُوۡنَ‏ ﴿21:20﴾ اَمِ اتَّخَذُوۡۤا اٰلِهَةً مِّنَ الۡاَرۡضِ هُمۡ يُنۡشِرُوۡنَ‏ ﴿21:21﴾ لَوۡ كَانَ فِيۡهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَـفَسَدَتَا​ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا يَصِفُوۡنَ‏ ﴿21:22﴾ لَا يُسۡـئَـلُ عَمَّا يَفۡعَلُ وَهُمۡ يُسۡـئَـلُوۡنَ‏ ﴿21:23﴾ اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً ​ ؕ قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَكُمۡ​ ۚ هٰذَا ذِكۡرُ مَنۡ مَّعِىَ وَذِكۡرُ مَنۡ قَبۡلِىۡ​ ؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۙ الۡحَـقَّ​ فَهُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿21:24﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ‏ ﴿21:25﴾ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا​ سُبۡحٰنَهٗ​ ؕ بَلۡ عِبَادٌ مُّكۡرَمُوۡنَ ۙ‏ ﴿21:26﴾ لَا يَسۡبِقُوۡنَهٗ بِالۡقَوۡلِ وَهُمۡ بِاَمۡرِهٖ يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿21:27﴾ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ وَ لَا يَشۡفَعُوۡنَۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰى وَهُمۡ مِّنۡ خَشۡيَـتِهٖ مُشۡفِقُوۡنَ‏ ﴿21:28﴾ وَمَنۡ يَّقُلۡ مِنۡهُمۡ اِنِّىۡۤ اِلٰـهٌ مِّنۡ دُوۡنِهٖ فَذٰلِكَ نَجۡزِيۡهِ جَهَـنَّمَ​ؕ كَذٰلِكَ نَجۡزِى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿21:29﴾

11 - کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پِیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دوسری کسی قوم کو اُٹھایا۔ 12 - جب اُن کو ہمارا عذاب محسوس ہوا 13 تو لگے وہاں سے بھاگنے ۔ 13 - (کہا گیا)”بھاگو نہیں، جاوٴ اپنے اُنہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے ۔“ 14 14 - کہنے لگے ”ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔“ 15 - اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اُن کو کھلیان کر دیا، زندگی کا ایک شرارہ تک اُن میں نہ رہا۔ 16 - ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ 15 17 - اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ 16 18 - مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ 17 19 - زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے۔ 18 اور جو (فرشتے)اُس کے پاس ہیں 19 وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملُول ہوتے ہیں۔ 20 20 - شب و روز اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دَم نہیں لیتے۔ 21 - کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ ( بے جان کو جان بخش کر)اُٹھا کھڑا کرتے ہوں؟ 21 22 - اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ( زمین اور آسمان)دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ 22 پس پاک ہے اللہ ربّ العرش 23 اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ 23 - وہ اپنے کاموں کے لیے ( کسی کے آگے)جواب دہ نہیں ہے اور سب جواب دہ ہیں۔ 24 - کیا اُسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں؟ اے محمد ؐ ، ان سے کہو کہ ”لاوٴ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی ۔“ 24 مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ 25 25 - ہم نے تم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔ 26 - یہ کہتے ہیں ”رحمٰن اولاد رکھتا ہے۔“26 سُبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ 27 - اُس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں 28 - جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اُس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سُننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔ 27 29 - اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اُسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ ؏ ۲


Notes

13. یعنی جب عذابِ الہٰی سر پر آگیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ آگئی شامت۔

14. نہایت معنی خیز فقرہ ہے اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، مثلاً: ذرا اچھی طرح اِس عذاب کا معائنہ کرو تا کہ کل کوئی اس کی کیفیت پوچھے تو ٹھیک بتا سکو۔ اپنے وہی ٹھا ٹھ جما کر پھر مجلسیں گرم کرو، شاید اب بھی تمہارے خدم و حشم ہاتھ باندھ کر پوچھیں کہ حضور کیا حکم ہے۔ اپنی وہی کونسلیں اور کمیٹیاں جمائے بیٹھے رہو ، شاید اب بھی تمہارے عاقلانہ مشوروں اور مدبرانہ آراء سے استفادہ کرنے کے لیے دنیا حاضر ہو۔

15. یہ تبصرہ ہے اُن کے اُس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے۔ چند روز کی بھلی بُری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا ہو۔ یہ خیال در حقیقت اِس بات کا ہم معنی تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈر ے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے۔ اور یہی خیال دعوتِ پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا اصل سبب تھا۔

16. یعنی ہمیں کھیلنا ہی ہوتا تو کھلونے بنا کر ہم خود ہی کھیل لیتے۔ اِس صورت میں یہ ظلم تو ہر گز نہ کیا جاتا کہ خواہ مخواہ ایک ذی حِس ، ذی شعور، ذمہ دار مخلوق کو پیدا کر ڈالا جاتا، اُس کے درمیان حق و باطل کی یہ کشمکش اور کھینچا تانیاں کرائی جاتیں، اور محض اپنے لطف و تفریح کے لیے ہم دوسروں کو بلاوجہ تکلیفوں میں ڈالتے۔ تمہارے خدا نے یہ دنیا کچھ رومی اکھاڑے(Colosseum ) کے طور پر نہیں بنائی ہے کہ بندوں کو درندوں سے لڑوا کر اور ان کی بوٹیاں نچوا کر خوشی کے ٹھٹھے لگائے۔

17. یعنی ہم بازی گر نہیں ہیں ، نہ ہمارا کام کھیل تماشا کرنا ہے۔ ہماری یہ دنیا ایک سنجیدہ نظام ہے جس میں کوئی باطل چیز نہیں جم سکتی۔ باطل یہاں جب بھی سراُٹھا تا ہے، حقیقت سے اس کا تصادم ہو کر رہتا ہے اور آخر کار وہ مٹ کر ہی رہتا ہے۔ اس دنیا کو اگر تم تماشا گاہ سمجھ کر جیو گے ، یا حقیقت کے خلاف باطل نظریات پر کام کرو گے تو نتیجہ تمہاری اپنی ہی تباہی ہو گا۔ نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض ایک تماشا گاہ ، محض ایک خوانِ یغما، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی، اور انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے در پے کس انجام سے دوچار ہوتی رہی ہیں ۔ پھر یہ کونسی عقلمندی ہے کہ جب سمجھانے والا سمجھائے تو اس کا مذاق اُڑاؤ، اور جب اپنے ہی کیے کرتُوتوں کے نتائج عذاب الہٰی کی صورت میں سر پر آئیں تو چیخنے لگو کہ”ہائے ہمارے کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے“۔

18. یہاں سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر گفتگو شروع ہوتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکینِ مکہ کے درمیان اصل بنائے نزاع تھی۔ اب مشرکین کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کائنات کا یہ نظام جس میں تم جی رہے ہو (جس کے متعلق ابھی یہ بتایا جاچکا ہے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے ، جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ اور با مقصد اور مبنی بر حقیقت نظام ہے ، اور جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس میں باطل ہمیشہ حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے) اِس کی حقیقت یہ ہے کہ اس پورے نظام کا خالق، مالک، حاکم اور ربّ صرف ایک خدا ہے، اور اس حقیقت کے مقابلے میں باطل یہ ہے کہ اسے بہت سے خداؤں کی مشترک سلطنت سمجھا جائے ، یا یہ خیال کیا جائے کہ ایک بڑے خدا کی خدائی میں دوسرے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بھی کچھ دخل ہے۔

19. یعنی وہی فرشتے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی اولاد سمجھ کر، یا خدائی میں دخیل مان کر معبود بنائے ہوئے تھے۔

20. یعنی خدا کی بندگی کرنا ان کو ناگوار بھی نہیں ہے کہ بادل نا خواستہ بندگی کرتے کرتے وہ ملول ہو جاتے ہوں۔ اصل میں لفظ لا یستحسرون استعمال کیا گیا ہے ۔ استحسار میں تکان کا مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد وہ تکان ہے جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہو تی ہے۔

21. اصل میں لفظ ”یُنشرون“ استعمال ہواہے جو ”اِنشار“ سے مشتق ہے۔ اِنشار کے معنی ہیں بے جان پڑی ہوئی چیز کو اُٹھا کھڑا کرنا۔ اگرچہ اس لفظ کو قرآن مجید میں بالعموم زندگی بعدِ موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر، اصل لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بے جان مادّے میں زندگی پھونک دینے کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ اور موقع و محل کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو انہوں نے خدا قرار دے رکھا ہے اور اپنا معبود بنایا ہے ، کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو مادّۂ غیر ذی حیات میں زندگی پیدا کرتا ہو؟ اگر ایک اللہ کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اور مشرکینِ عرب خود مانتے تھے کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ اُن کو خدا اور معبود کس لیے مان رہے ہیں؟

22. یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی ۔ سادہ سی بات ، جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی، ایک موٹی سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتاہے ، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحبِ خانہ ہوں۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ اِن بے شمار اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ نمبر ۸۵)۔

23. ربّ العرش ، یعنی کائنات کے تختِ سلطنت کا مالک۔

24. پہلے دو استدلال عقلی تھے۔ اور یہ استدلال نقلی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جتنی کتابیں بھی خدا کی طرف سے دنیا کے کسی ملک میں کسی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں ، ان میں سے کسی میں یہ نکال کر دکھا دو کہ ایک اللہ، خالقِ زمین و آسمان کے سوا کوئی دوسرا بھی خدائی کا کوئی شائبہ رکھتا ہے اور کسی اور کو بھی بندگی و عبادت کا حق پہنچتا ہے ۔ پھر یہ کیسا مذہب تم لوگوں نے بنا رکھا ہے جس کی تائید میں نہ عقل سے کوئی دلیل ہے اور نہ آسمانی کتابیں ہی جس کے لیے کوئی شہادت فراہم کرتی ہیں۔

25. یعنی نبی کی بات پر اِن کا توجہ نہ کرنا علم پر نہیں بلکہ جہل پر مبنی ہے۔ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے سمجھانے والے کی بات کو ناقابلِ التفات سمجھتے ہیں۔

26. یہاں پھر فرشتوں ہی کا ذکر ہے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ بعد کی تقریر سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے۔

27. مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے۔ ایک یہ کہ ان کے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خا کے ہاں اپنا شفیع(سفارشی ) بنانا چاہتے تھے۔ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُ لَآءِ شُفَعَآ ؤُ نَا عِنْدَاللہِ (یونس ، آیت ۱۸)۔ اور مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّ بُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفًا (الزمر، آیت ۳)۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے۔

اِس جگہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو بھی جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہیں اور اُن باتوں کو بھی جو اُن سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ آخر ان کو سفارش کر نے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتاہے جبکہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں ۔ اس لیے خوا ہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین ، ہر ایک کا اختیار ِ شفا لازمًا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے۔ بطورِ خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سرِ نیاز جھکایا جائے اور دستِ سوال دراز کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، طٰہٰ ، حاشیہ نمبر ۸۵ – ۸۶)۔