Tafheem ul Quran

Surah 21 Al-Anbya, Ayat 30-41

اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ كَانَـتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا​ ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ كُلَّ شَىۡءٍ حَىٍّ​ ؕ اَفَلَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿21:30﴾ وَجَعَلۡنَا فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِهِمۡ وَجَعَلۡنَا فِيۡهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمۡ يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿21:31﴾ وَجَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا ۖۚ وَّهُمۡ عَنۡ اٰيٰتِهَا مُعۡرِضُوۡنَ‏  ﴿21:32﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ​ؕ كُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿21:33﴾ وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ الۡخُـلۡدَ​ ؕ اَفَا۟ـئِن مِّتَّ فَهُمُ الۡخٰـلِدُوۡنَ‏ ﴿21:34﴾ كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ​ؕ وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً​  ؕ وَاِلَيۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿21:35﴾ وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ يَّتَّخِذُوۡنَكَ اِلَّا هُزُوًا ؕ اَهٰذَا الَّذِىۡ يَذۡكُرُ اٰلِهَـتَكُمۡ​ۚ وَهُمۡ بِذِكۡرِ الرَّحۡمٰنِ هُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏  ﴿21:36﴾ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ​ؕ سَاُورِيۡكُمۡ اٰيٰتِىۡ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنِ‏  ﴿21:37﴾ وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿21:38﴾ لَوۡ يَعۡلَمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا حِيۡنَ لَا يَكُفُّوۡنَ عَنۡ وُّجُوۡهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ وَلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿21:39﴾ بَلۡ تَاۡتِيۡهِمۡ بَغۡتَةً فَتَبۡهَتُهُمۡ فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ رَدَّهَا وَلَا هُمۡ يُنۡظَرُوۡنَ‏ ﴿21:40﴾ وَلَـقَدِ اسۡتُهۡزِئَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿21:41﴾

30 - کیا وہ لوگ جنہوں نے ( نبی کی بات ماننے سے)انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، 28 اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ 29 کیا وہ ( ہماری اِس خلاقی کو )نہیں مانتے؟ 31 - اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ اِنہیں لے کر ڈھلک نہ جائے، 30 اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، 31 شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں۔ 32 32 - اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، 33 مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف 34 توجہ ہی نہیں کرتے۔ 33 - اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا ۔ سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں۔ 35 34 - 36 اور اے محمدؐ ، ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ 35 - ہر جاندار کو موت کا مزّہ چکھنا ہے، 37 اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ 38 آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ 36 - یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں ”کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداوٴں کا ذکر کیا کرتا ہے؟“ 39 اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمٰن کے ذکر سے منکر ہیں۔ 40 37 - انسان جلد باز مخلوق ہے۔ 41 ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاوٴ 42 38 - ۔۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں”آخر یہ دھمکی پُوری کب ہوگی اگر تم سچے ہو؟“ 39 - کاش اِن کافروں کو اُس وقت کا کچھ علم ہوتا جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں گے نہ اپنی پیٹھیں، اور نہ ان کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔ 40 - وہ بلا اچانک آئے گی اور انہیں اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اُس کو دفع کر سکیں گے اور نہ ان کو لمحہ بھر مہلت ہی مل سکے گی۔ 41 - مذاق تم سے پہلے بھی رسُولوں کا اُڑایا جا چکا ہے مگر اُن کا مذاق اُڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آکر رہے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔ ؏۳


Notes

28. اصل میں لفظ”رتق“ اور ”فتق“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ رَتق کے معنی ہیں یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاصق ہونا۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass ) کی سی تھی ، بعد میں اُس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اَجرامِ فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، حٰمٓ السجدہ ، حاشیہ نمبر ۱۳ – ۱۴ – ۱۵)۔

29. اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سببِ زندگی اور اصلِ حیات بنایا، اُسی میں اور اُسی سے زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جگہ اس مطلب کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآ ءٍ (النور، آیت نمبر ۴۵)”اور خدا نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا“۔

30. اس کی تشریح سورۂ نحل حاشیہ نمبر ۱۲ میں گزر چکی ہے۔

31. یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اِسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کےلیے راہ بن جاتی ہے یا بنالی جا سکتی ہے۔

32. ذو معنی فقرہ ہے۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے راہ پائیں ، اور یہ بھی کہ وہ اِس حکمت اور اس کاریگری اور اِس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں۔

33. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ الحِجر، حواشی نمبر ۸ ، ۱۰، ۱۱، ۱۲۔

34. یعنی اُن نشانیوں کی طرف جو آسمان میں ہیں۔

35. کُلٌّ اور یَسْبَحُوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مراد صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اَجرامِ فلکی ، یعنی تارے بھی مراد ہیں ، ورنہ جمع کے بجائے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ فَلَک ، جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے ، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے۔” سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں “ سے دوباتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی” فلک“ میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے۔ دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو، بلکہ وہ کوئی سیّال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں اِن تاروں کی حرکت تَیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، یٰسین ، حاشیہ نمبر ۳۷)۔

قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق و فتق ، اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے، اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ، موجودہ زمانے میں طبعیات (Physics ) ، حیاتیات (Biology ) اور علمِ ہیئت (Astronomy ) کی جدید معلومات نےہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیا ہے ، اور نہیں کہہ سکتے کہ آ گے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ اِن الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی۔ بہر حال موجودہ زمانے کا انسان اِن تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے لے کر کَذٰ لِکَ نَجْزِ ی الظّٰلِمِیْنَ تک کی تقریر شرک کی تردید میں ہے ، اور اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا سے لے کر فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ تک جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں توحید کے لیے ایجابی (Positive ) دلائل دیے گئےہیں ۔ مدّعا یہ ہے کہ یہ نظامِ کائنات جو تمہارے سامنے ہے، کیا اس میں کہیں ایک اللہ ربّ العالمین کے سوا کسی اور کی بھی کوئی کاریگری تمہیں نظر آتی ہے ؟ کیا یہ نظام ایک سے زیادہ خداؤں کی کار فرمائی میں بن سکتا تھا اور اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا تھا؟ کیا اس حکیمانہ نظام کے متعلق کوئی صاحب عقل و خرد آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے اور اس نے محض تفریح کے لیے چند گُڑیاں بنائی ہیں جن سے کچھ مدّت کھیل کر بس وہ یونہی اِن کو خاک میں ملا دے گا؟ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور پھر بھی نبی کی بات ماننے سے انکار کیے جاتے ہو. تم کو نظر نہیں آتا کہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اس نظریۂ توحید کی شہادت دے رہی ہے جو یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے؟ ان نشانیوں کے ہوتے تم کہتے ہو کہ فَلْیَاْ تِنَا بِاٰ یَۃٍ،” یہ نبی کوئی نشانی لے کر آئے“۔ کیا نبی کی دعوتِ توحید کے حق ہونے پر گواہی دینے کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں ہیں؟

36. یہاں سے پھر سلسلۂ تقریر اُس کشمکش کی طرف مڑتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی۔

37. یہ مختصر جواب ہے اُن ساری دھمکیوں اور بددعاؤں اور کوسنوں اور قتل کی سازشوں کا جن سے ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کی جاتی تھی۔ ایک طرف اکابرِ قریش تھے جو آئے دن آپ کو اِس تبلیغ کے خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے، اور ان میں سے بعض پُر جوش مخالفین بیٹھ بیٹھ کر یہ تک سوچا کرتے تھے کہ کسی طرح آپ کا کام تمام کر دیں۔ دوسری طرف ہر وہ گھر جس کا کوئی فرد اسلام قبول کر لیتا تھا، آپ کا دشمن بن جاتا تھا۔ اُس کی عورتیں آپ کو کلپ کلپ کر کوسنے اور بددعائیں دیتی تھیں اور اُس کے مرد آپ کو ڈراوے دیتے پھرتے تھے۔ خصوصًا ہجرت حبشہ کے بعد تو مکے بھر کے گھروں میں کہرام مچ گیا تھا ، کیونکہ مشکل ہی سے کوئی ایسا گھرانا بچا رہ گیا تھا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو۔ یہ سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی دوہائیاں دیتے تھے کہ اِس شخص نے ہمارے گھر برباد کیے ہیں۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ، اور ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ تم ان کی پروا کیے بغیر، بے خوف اپنا کام کیے جاؤ۔

38. یعنی راحت اور رنج ، مفلسی اور امیری، غلبہ اور مغلوبی، قوت اورضعف، صحت اور بیماری ، غرض تمام مختلف حالات میں تم لوگوں کی آزمائش کی جارہی ہے ، تاکہ دیکھیں تم اچھے حالات میں متکبّر، ظالم ، خدا فراموش، بندۂ نفس تو نہیں بن جاتے ، اور بُرے حالات میں کم ہمتی کے ساتھ پست اور ذلیل طریقے اور ناجائز راستے تو اختیار نہیں کرنے لگتے۔ لہٰذا کسی صاحبِ عقل آدمی کو اِن مختلف حالات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ جو حالت بھی اُسے پیش آئے ، اُس کے امتحانی اور آزمائشی پہلو کو نگاہ میں رکھنا چاہیے اور اس سے بخیریت گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ صرف ایک احمق اور کم ظرف آدمی کا کام ہے کہ جب اچھے حالات آئیں تو فرعون بن جائے اور جب بُرے حالات پیش آجائیں تو زمین پر ناک رگڑنے لگے۔

39. یعنی برائی کے ساتھ اُن کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتا رہا ہے، بلکہ مذاق اُڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اُڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے ہوں گے۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتاتھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کے خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے۔

40. یعنی بتُوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں ، مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سُن کر آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔

41. اصل میں خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے ” انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے ، یا پیدا کیا گیا ہے “۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں ۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پُتلا ہے ، اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے، اُسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس کی سرشت میں ہے۔ یہی بات جس کو یہاں خُلِقَ الْاِ نْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے ، دوسری جگہ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا، ”انسان جلد باز واقع ہوا ہے“ (بنی اسرائیل ، آیت ۱۱) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

42. بعد کی تقریر صاف بتا رہی ہے کہ یہاں”نشانیوں“ سے کیا مراد ہے۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اُڑاتے تھے اُن میں سے ایک عذاب ِ الہٰی ، اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہےہیں۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے ۔ اسی کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے۔