43. یعنی اگر اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبرد ست ہاتھ تم پر پڑ جائے تو آخر وہ کونسا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا؟
44. یعنی ہماری اِس مہربانی اور پرورش سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ اِن کا کوئی ذاتی استحقاق ہے جس کا چھیننے والا کوئی نہیں۔ اپنی خوشحالیوں اور سرداریوں کو یہ لازوال سمجھنے لگے ہیں اور ایسے سرمست ہوگئے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔
45. یہ مضمون اس سے پہلے سُورۂ رعد آیت ۴۱ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۰) ۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کارفرمائی کے یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں ، کبھی وبا کی شکل میں ، کبھی سیلاب کی شکل میں ، کبھی زلزلے کی شکل میں ، کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی آجاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ لہلہاتی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے ۔ تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے۔ غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہو جاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۴، السجدہ، حاشیہ نمبر ۳۳)۔
46. یعنی جب کہ اِن کے تمام وسائلِ زندگی ہمارے ہاتھ میں ہیں ، جس چیز کو چاہیں گھٹا دیں اور جسے چاہیں روک لیں ، تو کیا یہ اتنا بل بوتا رکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں غالب آجائیں اور ہماری پکڑ سے بچ نکلیں؟ کیا یہ آثار ان کو یہی اطمینان دلا رہے ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال اور تمہارا عیش غیر فانی ہے اور کوئی تمہیں پکڑنے والا نہیں ہے۔
47. وہی عذاب جس کے لیے یہ جلدی مچاتے ہیں اور مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاؤ نا وہ عذاب کیوں نہیں وہ ٹوٹ پڑتا۔
48. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف ،حاشیہ نمبر ۸ – ۹۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہےکہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی۔ بہر حال وہ کوئی ایسی چیز ہو گی جو مادّی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ”ترازو“ کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی ، یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصوّر دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں ، اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامۂ زندگی کو جانچ کر بے کم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا۔
49. یہاں سے انبیاء علیہم السّلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ِ ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:
اوّل یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے، کوئی نِرالی مخلوق نہ تھے۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش نہیں آیا ہے کہ ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔
دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آئے تھے جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہیں۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔
سوم یہ کہ انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے ۔ بڑے بڑے مصائب سے وہ گزرے ہیں ۔ سالہا سال مصائب میں مبتلا رہے ہیں۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈالے ہوئے مصائب میں بھی، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے ، اس نے اپنے فضل و رحمت سے اُن کو نوازا ہے، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے ، ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے۔
چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول ِ بارگاہ ہونے کے باوجود ، اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود، تھے وہ بندے اور بشر ہی۔ الوہیّت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی۔ رائے اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی۔ بیمار بھی وہ ہوتے تھے۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے ۔ حتّٰی کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا۔
50. تینوں الفاظ توراۃ کی تعریف میں استعمال ہوئے ہیں ۔ یعنی وہ حق و باطل کافرق دکھانے والی کسوٹی تھی، وہ انسان کو زندگی کا سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی، اور وہ اولادِ آدم کو اس کا بھُولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔
51. یعنی اگرچہ بھیجی گئی تھی وہ تمام انسانوں کے لیے، مگر اس سے فائدہ عملًا وہی لوگ اُٹھا سکتے تھے جو اِن صفات سے متصف ہوں۔
52. جس کا ابھی اُوپر ذکر گزرا ہے ، یعنی قیامت۔