Tafheem ul Quran

Surah 21 Al-Anbya, Ayat 51-75

وَلَـقَدۡ اٰتَيۡنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ رُشۡدَهٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِيۡنَ​ۚ‏  ﴿21:51﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيۡلُ الَّتِىۡۤ اَنۡتُمۡ لَهَا عٰكِفُوۡنَ‏ ﴿21:52﴾ قَالُوۡا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِيۡنَ‏ ﴿21:53﴾ قَالَ لَـقَدۡ كُنۡتُمۡ اَنۡتُمۡ وَاٰبَآؤُكُمۡ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿21:54﴾ قَالُوۡۤا اَجِئۡتَـنَا بِالۡحَـقِّ اَمۡ اَنۡتَ مِنَ اللّٰعِبِيۡنَ‏ ﴿21:55﴾ قَالَ بَلْ رَّبُّكُمۡ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الَّذِىۡ فَطَرَهُنَّ ​ۖ  وَاَنَا عَلٰى ذٰلِكُمۡ مِّنَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ ﴿21:56﴾ وَ تَاللّٰهِ لَاَكِيۡدَنَّ اَصۡنَامَكُمۡ بَعۡدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدۡبِرِيۡنَ‏  ﴿21:57﴾ فَجَعَلَهُمۡ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيۡرًا لَّهُمۡ لَعَلَّهُمۡ اِلَيۡهِ يَرۡجِعُوۡنَ‏  ﴿21:58﴾ قَالُوۡا مَنۡ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿21:59﴾ قَالُوۡا سَمِعۡنَا فَتًى يَّذۡكُرُهُمۡ يُقَالُ لَهٗۤ اِبۡرٰهِيۡمُ ؕ‏ ﴿21:60﴾ قَالُوۡا فَاۡتُوۡا بِهٖ عَلٰٓى اَعۡيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَشۡهَدُوۡنَ‏  ﴿21:61﴾ قَالُوۡٓا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا يٰۤاِبۡرٰهِيۡمُؕ‏ ﴿21:62﴾ قَالَ بَلۡ فَعَلَهٗ ​​ۖ  كَبِيۡرُهُمۡ هٰذَا فَسۡـئَلُوۡهُمۡ اِنۡ كَانُوۡا يَنۡطِقُوۡنَ‏ ﴿21:63﴾ فَرَجَعُوۡۤا اِلٰٓى اَنۡـفُسِهِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّكُمۡ اَنۡـتُمُ الظّٰلِمُوۡنَۙ‏  ﴿21:64﴾ ثُمَّ نُكِسُوۡا عَلٰى رُءُوۡسِہِمۡ​ۚ لَـقَدۡ عَلِمۡتَ مَا هٰٓؤُلَاۤءِ يَنۡطِقُوۡنَ‏  ﴿21:65﴾ قَالَ اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُكُمۡ شَيۡـئًـا وَّلَا يَضُرُّكُمۡؕ‏ ﴿21:66﴾ اُفٍّ لَّـكُمۡ وَلِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ​ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏  ﴿21:67﴾ قَالُوۡا حَرِّقُوۡهُ وَانْصُرُوۡۤا اٰلِهَتَكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ فٰعِلِيۡنَ‏  ﴿21:68﴾ قُلۡنَا يٰنَارُ كُوۡنِىۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَۙ‏ ﴿21:69﴾ وَاَرَادُوۡا بِهٖ كَيۡدًا فَجَعَلۡنٰهُمُ الۡاَخۡسَرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿21:70﴾ وَنَجَّيۡنٰهُ وَلُوۡطًا اِلَى الۡاَرۡضِ الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا لِلۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿21:71﴾ وَوَهَبۡنَا لَهٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَيَعۡقُوۡبَ نَافِلَةً​  ؕ وَكُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِيۡنَ‏ ﴿21:72﴾ وَجَعَلۡنٰهُمۡ اَـئِمَّةً يَّهۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡهِمۡ فِعۡلَ الۡخَيۡرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِيۡتَآءَ الزَّكٰوةِ​ۚ وَكَانُوۡا لَـنَا عٰبِدِيۡنَ ۙ​ۚ‏ ﴿21:73﴾ وَلُوۡطًا اٰتَيۡنٰهُ حُكۡمًا وَّعِلۡمًا وَّنَجَّيۡنٰهُ مِنَ الۡقَرۡيَةِ الَّتِىۡ كَانَتۡ تَّعۡمَلُ الۡخَبٰٓـئِثَ​ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فٰسِقِيۡنَۙ‏  ﴿21:74﴾ وَاَدۡخَلۡنٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِنَا​ ؕ اِنَّهٗ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿21:75﴾

51 - اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔ 53 52 - 54 یاد کرو وہ موقع جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ”یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟“ 53 - انہوں نے جواب دیا ”ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔“ 54 - اس نے کہا ”تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔“ 55 - انہوں نے کہا ”کیا تُو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟“ 55 56 - اُس نے جواب دیا ”نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا ربّ وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا ربّ اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے۔ اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں۔ 57 - اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بُتوں کی خبر لوں گا۔“56 58 - چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا 57 اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رُجوع کریں۔58 59 - (اُنہوں نے آکر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو)کہنے لگے” ہمارے خداوٴں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ۔“ 60 - (بعض لوگ)بولے” ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے۔“ 61 - اُنہوں نے کہا ”تو پکڑ لاوٴ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں( اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)۔“ 59 62 - (ابراہیمؑ کے آنے پر)اُنہوں نے پوچھا ”کیوں ابراہیمؑ، تُو نے ہمارے خداوٴں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟“ 63 - اُس نے جواب دیا” بلکہ یہ سب کچھ اِن کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پُوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔“60 64 - یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دِلوں میں)کہنے لگے” واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔“ 65 - مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی 61اور بولے ”تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔“ 66 - ابراہیمؑ نے کہا ”پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پُوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ 67 - تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پُوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟“ 68 - اُنہوں نے کہا ”جلا ڈالو اِس کو اور حمایت کرو اپنے خداوٴں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔“ 69 - ہم نے کہا ”اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔“ 62 70 - وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں۔ مگر ہم نے اُن کو بُری طرح ناکام کر دیا۔ 71 - اور ہم اُسے اور لوطؑ 63 کو بچا کر اُس سر زمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔ 64 72 - اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، 65 اور ہر ایک کو صالح بنایا۔ 73 - اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے اُنہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰة دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ 66 74 - اور لُوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا 67 اور اُسے اُس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بدکاریاں کرتی تھی ۔۔۔۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بُری، فاسق قوم تھی ۔۔۔۔ 75 - اور لُوطؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔ ؏ ۵


Notes

53. ”ہوشمندی“ ہم نے ” رشید“ کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں”صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا“۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ”رشد“ کا ترجمہ”راست روی“ بھی ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ رُشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اُس راست روی کو ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقلِ سلیم کے استعمال کا ، اس لیے ہم نے ”ہوشمندی“ کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے۔

”ابراہیم کو اُس کی ہوشمندی بخشی“یعنی جو ہوشمندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کر دہ تھی۔

”ہم اُس کو خوب جانتے تھے“ یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیسا آدمی ہے، اس لیے ہم نے اس کو نوازا۔ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَا لَتَہٗ،” اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے“۔ (الانعام ، آیت نمبر ۱۲۴)۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سردارانِ قریش کے اُس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اِس شخص میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں دیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اِس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملکِ عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیّت ہے ، اس لیے ان کی پوری قوم میں سے اُن کو اِس نعمت کےلیے منتخب کیا گیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرتِ پاک کے مختلف پہلو اِس سے پہلے سُورۂ بقرہ آیات ۱۲۴ تا ۱۴۱ – ۲۵۸ – ۲۶۰۔ الانعام ، آیات ۱۲۰ تا ۱۳۳ میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا۔

54. جس واقعہ کا آگے ذکر کیا جا رہا ہے اس کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کرلیجیے کہ قریش کے لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے، کعبہ انہی کا تعمیر کردہ تھا کہ یہ اولادِ ابراہیم ہیں اور کعبۂ ابراہیمی کے مجاور ہیں۔ آج اِس زمانے اور عرب سے دُور دراز کے ماحول میں تو حضرت ابراہیم کا یہ قصہ صرف ایک سبق آموز تاریخی واقعہ ہی نظر آتا ہے ، مگر جس زمانے اور ماحول میں اوّل اوّل یہ بیان کیا گیا تھا ، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ قریش کے مذہب اور ان کی برہمنیت پر ایک ایسی کاری ضرب تھی جو ٹھیک اس کی جڑ پر جا کر لگتی تھی۔

55. اِس فقرے کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ”کیا تُو ہمارے سامنے حق پیش کر رہا ہے یا کھیلتا ہے“۔ لیکن اصل مفہوم وہی ہے جس کی ترجمانی اوپر کی گئی ہے ۔ ان لوگوں کو اپنے دین کے برحق ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ یہ تصوّر کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ یہ باتیں کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ تم محض مذاق اور کھیل کر رہے ہو یا واقعی تمہارے یہی خیالات ہیں۔

56. یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا کہ یہ بے بس ہیں ، ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں ، اور ان کو خدا بنانا غلط ہے۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کر یں گے ، تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیم نے اُس موقع پر نہیں بتائی۔

57. یعنی موقع پا کر جب کہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے ، حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے ، اور سارے بُتوں کو توڑ ڈالا۔

58. ”اُُس کی طرف“ کا اشارہ بڑے بُت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابرہیم ؑ کی طرف سے اُن کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے ۔ یعنی اگر اِن کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور، آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا؟ کون یہ کام کر گیا؟ اور آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کاروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید اِن کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔

59. یہ گویا حضرت ابراہیم کی منہ مانگی مراد تھی، کیونکہ وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ بات صرف پروہتوں اور پُجاریوں ہی کے سامنے نہ ہو بلکہ عام لوگ بھی موجود ہوں اور سب دیکھ لیں کہ یہ بُت جو اُن کے قاضی الحاجات بنا کر رکھے گئے ہیں کیسے بے بس ہیں اور خود یہ پروہت حضرات ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ اِس طرح اِن پجاریوں سے بھی وہی حماقت سرزد ہوئی جو فرعون سے سرزد ہوئی تھی۔ اس نے بھی جادوگروں سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرانے کے لیے ملک بھر کی خلقت جمع کرائی تھی اور اِنہوں نے بھی حضرت ابراہیم کا مقدمہ سننے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لیا۔ وہاں حضرت موسیٰ کو سب کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ لائے ہیں وہ جادو نہیں معجزہ ہے۔ اور یہاں حضرت ابراہیم کو ان کے دشمنوں نے آپ ہی یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ عوام کے سامنے اُن کے مکر و فریب کاطلسم توڑ دیں۔

60. یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بُت شکنی کے اِس فعل کو بڑے بُت کی طرف جو منسُوب کیا ہے اِس سے اُن کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجّت قائم کر رہے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جو اب میں خود اس کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبُود بالکل بے بس ہیں اور اُن سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلافِ واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھُوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ نہ وہ خود جھُوٹ کی نیّت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اِسے جھُوٹ سمجھتے ہیں ۔ کہنے والا اسے حجّت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اُسے اسی معنی میں لیتا ہے۔

بد قسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آگئی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک ”جھوٹ “تو یہ ہے ، اور دوسرا”جھوٹ“ سورۂ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول اِنِّیْ سَقِیْمٌ، اور تیسرا ”جھوٹ“ اُن کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے ۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرۂ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابلِ اعتماد ہوں۔ اور نہ فنِ حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابلِ اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابلِ اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے ، اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔

یہ حدیث ، جس میں حضرت ابراہیم کے تین”جھوٹ“ بیان کیے گئے ہیں، صرف اِسی وجہ سے قابلِ اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے ۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محلِّ نظر ہیں۔ اُن میں سے ایک ”جھوٹ“ کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اِس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ ”جھوٹ“ کا اطلاق نہیں کر سکتا، کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معاذاللہ اس سخن ناشناسی کی توقع کریں۔ رہا اِنِّیْ سَقِیْمٌ والا واقعہ تو اس کا جھُوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اُس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی اُن کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اِس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی کہ کہہ دے گا کہ یہ ہر گز واقعہ نہیں ہو سکتا۔ قصّہ اُس وقت کا بتایا جا تا ہے جب حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں۔ بائیبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ۷۵ اور حضرت سارہ کی عمر ۶۵ برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے(پیدائش ، باب ۱۲)۔ حدیث کی زیرِ بحث روایت میں تیسرے ”جھوٹ“ کی بنیاد اِسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسُوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اسی طرح کی اِفراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اُس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرینِ حدیث کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل ، جلد دوم، ص ۳۵ تا ۳۹)۔

61. اصل میں نُکِسُوْ ا عَلیٰ رُءُ وْ سِھِمْ (اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل) فرمایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے۔ لیکن موقع و محل اور اسلوبِ بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ صحیح مطلب ، جو سلسلہ ٔ کلام اور اندازِ کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے ، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو ، کیسے بے بس اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد اور جہالت سوار ہو گئی اور ، جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے ، اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی ۔ دماغ سیدھا سوچتے سوچتے یکایک اُلٹا سوچنے لگا۔

62. الفاظ صاف بتا رہے ہیں ، اور سیاق و سباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا ، اور جب آگ کا الاؤ تیار کر کے اُنہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جائے اور بے ضرر بن کر رہ جائے۔ پس صریح طور پر یہ بھی اُن معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظامِ عالم کے معمول(Routine) سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے ، تو آخر وہ خدا کو ماننے ہی کی زحمت کیوں اُٹھاتا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندۂ خدا، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو، جیسا کہ وہ ہے ، ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ، اسے اس کے حال پر چھوڑو۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اِس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ عنکبوت ، حاشیہ نمبر ۳۹)۔

63. بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے دوبھائی تھے، نَحور اور حاران ۔ حضرت لوط ؑ حاران کے بیٹے تھے (پیدائش باب ۱۱، آیت ۲۶)۔ سُورۂ عنکبوت میں حضرت ابراہیم کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ؑ ہی ان پر ایمان لائے تھے (ملاحظہ ہو آیت ۲۶)۔

64. یعنی شام و فلسطین کی سرزمین۔ اس کی برکتیں مادّی بھی ہیں او ر روحانی بھی۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ اور روحانی حیثیت سے وہ ۲ ہزار برس تک انبیاء علیہم السّلام کا مہبط رہی ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ہیں۔

65. یعنی بیٹے کے بعد پوتا بھی ایسا ہوا جسے نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

66. حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے ۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش ، بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد ، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ ، اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا ، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘ کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے ، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے ۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں ، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب 11 ۔ آیات 27 تا 32 )۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘ (باب 12 ۔ آیت 1 ۔3)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی ۔

تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں ۔ مطر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے ، بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے ، توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں ۔

تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے ۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں 10 سال تک وہ رہے ۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوحؑ کے پاس پہنچا دیا اور 39 سال تک وہ حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے ۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنی سگی بھتیجی سارہ سے نکاح کرلیا جو عمر میں ان سے 42 سال چھوٹی تھیں۔(بائیبل اس کی تشریح نہیں کرتی کہ سارہ حضرت ابراہیمؑ کی بھتیجی تھیں ۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف 10 سال بتاتی ہے ۔ پیدائش ۔ باب 11 ۔آیت 29 ۔ اور بابا 17 ۔ آیت 17 ) ۔

پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے ۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے 12 بت رکھے ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود کے پاس پہنچا اور شکایت کی کہ 50 برس پہلے میرے ہاں جو لڑکا پیدا ہوا تھا آج اس نے میرے گھر میں یہ حرکت کی ہے، آپاس کا فیصلہ کیجئے۔ نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے ۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے ۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیمؑ اس میں پھینک دیے گئے ۔ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیمؑ کو لوگوں نے دیکھا کہ اندر اطمینان سےٹہل رہے ہیں۔نمرود کو اس معاملے کی اطلاع دی گئی۔اس نے آکر جب خود اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھ لیا تو پکارکر کہا کہ ’’ آسمانی خدا کے بندے ، آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا‘‘۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے ۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا۔

اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو سال تک وہاں رہے ۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے ۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے ، مگر حضرت ابراہیمؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام ، الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیمؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔وہاں تارح آکر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے ۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا ۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حاران چلا گیا۔ (منتخبات تلمو د از ایچ پولونو، لندن ۔ صفحہ 30 تا 42 ۔ )۔

کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے ؟

67. ”حکم اور علم بخشنا“ بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کر نے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ”حکم“ سے مراد حکمت بھی ہے، صحیح قوت فیصلہ بھی ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی (Authority ) حاصل ہونا بھی۔ رہا ”علم“ تو اس سے مراد وہ علم حق ہے جو وحی کےذریعہ عطا کیا گیا ہو۔ حضرت لوط ؑ کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف ، آیات ۸۰ تا ۸۴۔ ھود ، آیات ۶۹ تا ۸۳ ۔ الحِجر ، آیات ۵۷ تا ۷۶۔