Tafheem ul Quran

Surah 21 Al-Anbya, Ayat 76-93

وَنُوۡحًا اِذۡ نَادٰى مِنۡ قَبۡلُ فَاسۡتَجَبۡنَا لَهٗ فَنَجَّيۡنٰهُ وَاَهۡلَهٗ مِنَ الۡكَرۡبِ الۡعَظِيۡمِ​ۚ‏ ﴿21:76﴾ وَنَصَرۡنٰهُ مِنَ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا ​ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فَاَغۡرَقۡنٰهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿21:77﴾ وَدَاوٗدَ وَسُلَيۡمٰنَ اِذۡ يَحۡكُمٰنِ فِى الۡحَـرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِيۡهِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ​ۚ وَكُنَّا لِحُكۡمِهِمۡ شٰهِدِيۡنَ ۙ‏ ﴿21:78﴾ فَفَهَّمۡنٰهَا سُلَيۡمٰنَ​​ۚ وَكُلًّا اٰتَيۡنَا حُكۡمًا وَّعِلۡمًا​ وَّسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ يُسَبِّحۡنَ وَالطَّيۡرَ​ ؕ وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ‏ ﴿21:79﴾ وَعَلَّمۡنٰهُ صَنۡعَةَ لَبُوۡسٍ لَّـكُمۡ لِتُحۡصِنَكُمۡ مِّنۡۢ بَاۡسِكُمۡ​ۚ فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ شٰكِرُوۡنَ‏ ﴿21:80﴾ وَلِسُلَيۡمٰنَ الرِّيۡحَ عَاصِفَةً تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖۤ اِلَى الۡاَرۡضِ الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا​ؕ وَكُنَّا بِكُلِّ شَىۡءٍ عٰلِمِيۡنَ‏ ﴿21:81﴾ وَمِنَ الشَّيٰطِيۡنِ مَنۡ يَّغُوۡصُوۡنَ لَهٗ وَيَعۡمَلُوۡنَ عَمَلًا دُوۡنَ ذٰ لِكَ​ ۚ وَكُنَّا لَهُمۡ حٰفِظِيۡنَۙ‏ ﴿21:82﴾ وَاَيُّوۡبَ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ​ ۖ​ۚ‏ ﴿21:83﴾ فَاسۡتَجَبۡنَا لَهٗ فَكَشَفۡنَا مَا بِهٖ مِنۡ ضُرٍّ​ وَّاٰتَيۡنٰهُ اَهۡلَهٗ و مِثۡلَهُمۡ مَّعَهُمۡ رَحۡمَةً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَذِكۡرٰى لِلۡعٰبِدِيۡنَ‏ ﴿21:84﴾ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِدۡرِيۡسَ وَذَا الۡكِفۡلِ​ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيۡنَ​ ۖ​ۚ‏  ﴿21:85﴾ وَاَدۡخَلۡنٰهُمۡ فِىۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّهُمۡ مِّنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿21:86﴾ وَ ذَا النُّوۡنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّـقۡدِرَ عَلَيۡهِ فَنَادٰى فِى الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ​ۖ  اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ​ ۖ ​ۚ‏ ﴿21:87﴾ فَاسۡتَجَبۡنَا لَهٗۙ وَنَجَّيۡنٰهُ مِنَ الۡـغَمِّ​ؕ وَكَذٰلِكَ نُـنْجِى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿21:88﴾ وَزَكَرِيَّاۤ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِىۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَيۡرُ الۡوٰرِثِيۡنَ​ ۖ​ۚ‏ ﴿21:89﴾ فَاسۡتَجَبۡنَا لَهٗ وَوَهَبۡنَا لَهٗ يَحۡيٰى وَاَصۡلَحۡنَا لَهٗ زَوۡجَهٗ ​ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا يُسٰرِعُوۡنَ فِىۡ الۡخَيۡـرٰتِ وَ يَدۡعُوۡنَـنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ​ؕ وَكَانُوۡا لَنَا خٰشِعِيۡنَ‏ ﴿21:90﴾ وَالَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَـنَفَخۡنَا فِيۡهَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰهَا وَابۡنَهَاۤ اٰيَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿21:91﴾ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً  ​ۖ وَّاَنَا رَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡنِ‏  ﴿21:92﴾ وَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَهُمۡ بَيۡنَهُمۡ​ؕ كُلٌّ اِلَـيۡنَا رٰجِعُوۡنَ‏ ﴿21:93﴾

76 - اور یہی نعمت ہم نے نُوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا 68تھا۔ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کَربِ عظیم 69 سے نجات دی 77 - اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جُھٹلا دیا تھا۔ وہ بڑے بُرے لوگ تھے ، پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔ 78 - اور اسی نعمت سے ہم نے داوٴدؑ و سلیمانؑ کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دُوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم اُن کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ 79 - اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔70 داوٴدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، 71 اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ 80 - اور ہم نے اُس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دُوسرے کی مار سے بچائے، 72 پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ 73 81 - اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، 74 ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ 82 - اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔ 75 83 - اور یہی (ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت)ہم نے ایوبؑ 76 کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ” مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔“ 77 84 - ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، 78 اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ 79 85 - اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ 80 اور ذوالکفلؑ 81 کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ 86 - اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے۔ 87 - اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ 82 یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا 83 اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ 84 آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا” 85 نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قُصور کیا۔“ 88 - تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔ 89 - اور زکریاؑ کو ، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ” اے پروردگار ، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے۔“ 90 - پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ 86 یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دُھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جُھکے ہوئے تھے۔ 87 91 - اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ 88 ہم نے اُس کے اندر اپنی رُوح سے پھُونکا 89 اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دُنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔ 90 92 - یہ تمہاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ 93 - مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ )انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا 91 ۔۔۔۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ ؏ ٦


Notes

68. اشارہ ہے حضرت نوح ؑ کی اُس دُعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کر تے رہنے کے بعد آخر کار تھک کر انہوں نے مانگی تھی کہ اَنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَا نْتِصِرْ ، ”پروردگار ، میں مغلوب ہو گیا ہوں، اب میری مدد کو پہنچ“ (القمر ۔ آیت ۱۰)۔ اور رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ، ”پروردگار ، زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ“(نوح ۔ آیت ۲۶)۔

69. کَربِ عظیم سے مراد یا تو ایک بدکردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے ، یا پھر طوفان۔ حضرت نوح ؑ کے قصّے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف ، آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس، آیات ۷۱ تا ۷۳۔ ھُود ، آیات ۲۵ تا ۴۸، بنی اسرائیل ، آیت ۳۔

70. اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے ، اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ مسلمان مفسرین نے اس کو جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھُس گئی تھیں۔ اُس نے حضرت داؤد کے ہاں ستغاثہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اُس کی بکریاں چھین کر اِسے دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا اور یہ رائے دی کہ بکریاں اُن وقت تک کھیت والے کے پاس رہیں جب تک بکری والا اُس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان ؑ کو سمجھایا تھا۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہا ئے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہوگا یا نہیں اور عائد ہوگا تو کس صورت میں ہوگا اور کس صورت میں نہیں ، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہوگی۔

اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السّلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی تھے ، الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی تھی اور وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کر گئے ، حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے۔ آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہی کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے۔

ضمنًا اِس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں ، تو اگرچہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا ، لیکن دونوں برحق ہوں گے، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو، ان میں سے کوئی جہالت اور ناتجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ بخاری میں عمر ؓوبن العاص کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اذا ا جتھد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فا خطأ فلہ اجرٌ۔”اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر“۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بُرَیْدَہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ”قاضی تین قسم کے ہیں، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے تو اس کے مطابق فیصلہ دے۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے۔

71. مَعَ دَاؤدَ کے الفاظ ہیں، لِدَاؤدَ کے الفاظ نہیں ہیں، یعنی” داؤد علیہ السّلام کے لیے“ نہیں بلکہ”ان کے ساتھ“ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدُوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِا لْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ o وَاطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌ o ”ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے، اور پرندے بھی مسخر کر دیے تھے جو اکٹھے ہوجاتے تھے، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے “۔ سورۂ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ”پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دُہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا“۔ اِن ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اُٹھتے تھے، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو اُن کی آواز سُن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سُنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ ؐ نے فرمایا لقد اوتی مزمارًا من مزا میر اٰل داؤد، یعنی اس شخص کو داؤد کی خوش آوازی کا ایک حصّہ ملا ہے۔

72. سورۂ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے : وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْفِیْ السَّرْدِ،”اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک انداز ے سے کڑیاں جوڑ“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی ، اور خاص طور پر جنگی اغراض کےلیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( Iron - Age ) سن ۱۲۰۰ اور سن ۱۰۰۰ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے ، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے۔ اوّل اوّل شام اور ایشیائے کوچک کو حِتّی قوم (Hittites ) کو جس کے عروج کا زمانہ سن ۲۰۰۰ ق م سے سن ۱۲۰۰ ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہو ا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فِسِتِیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حِتّیوں اور فِلِستیوں نے بنی اسرائیِل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریبًا بے دخل کر دیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتےتھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیا ر بھی تھے ( یشوع باب ۱۷ ۔ آیت ۱۶۔ قُضاۃ باب ۱ ۔ آیت ۱۹۔ باب ۴ ۔ آیت ۲ – ۳) سن ۱۰۲۰ ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصّہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (سن ۱۰۰۴ – سن ۹۶۵ ق م) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصّے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتّیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں اَدُوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore ) کی دولت سے مالا مال ہے، اور حال میں آثار ِ قدیمہ کی جو کھُدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عَقَبہ اور اَیلَہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندر گاہ عِصیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا ہے کہ اس میں بعض و ہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace ) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدّت پہلے آس پاس کی دُشمن قوموں نے اِسی لوہے کے ہتھیاروں سے اُن کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔

73. حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۲۵۱، بنی اسرائیل حاشیہ نمبر ۷ – ۶۳۔

74. اس کی تفصیل سورۂ سبا میں یہ آئی ہے : وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَ احُھَا شَھْرٌ ، ”اورسلیمان کےلیے ہم نےہوا کو مسخر کر دیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اُس کا چلنا شام کو۔“ پھر اس کی مزید تفصیل سورۂ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَ مْرِہٖ رُخَآ ءً حَیْثُ یَشَآءُ ، ”پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا “۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اِس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ اُن کی مرضی کے مطابق بادِ موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی ۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دَور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ایک طرف عِصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحرِ روم کے بندرگاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بائیبل میں”ترسیسی بیڑہ“ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے میں کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں اَدوم کے علاقۂ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اُس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۂ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا“۔ نیز اِس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ”مسخر“کرنے کاکیا مطلب ہے۔ اُس زمانے میں بحری سفر کا انحصار بادِ موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرمِ خاص تھا کہ وہ ہمیشہ اُن کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی ۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو ، جیساکہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ، تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جواختیارات چاہے دے سکتا ہے۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دِل دُکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔

75. سُورۂ سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مِنْ یَّعْمَلُ بِیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ، وَمَنْ یَّزِ غْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِ قْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِo یَعْلَمُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآ ءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَ جَفَانٍ کَا الْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّاسِیَاتٍ ۔۔۔۔۔۔ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلیٰ مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآ بَّۃُ الْاَرْضِ تَاْ کُلُ مِنْسَاَ تَہٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْ ا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْ ا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِo ”اور جِنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کر دیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے، اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کرتا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھُن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب وہ گر پڑا تو جِنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اِس ذلّت کے عذاب میں اتنی مدّت تک مبتلا نہ رہتے“۔ اِس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوئے تھے، اور جوا ن کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے ، وہ جِن تھے، اور جِن بھی وہ جِن جن کے بارے میں مشرکین ِ عرب کا یہ عقیدہ تھا، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ ان کو علم ِغیب حاصل ہے۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے ، اور اس کو اپنے تعصّبات اور پیشگی قائم کیے ہوئے نظریات کا تابع بنائے بغیر پڑھے ، یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق”شیطان“ اور ”جِن“ کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے، اورقرآن کی رُو سے وہ کون سے جِن ہیں جن کو مشرکینِ عرب عالم الغیب سمجھتے تھے۔

جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے ، انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوئے تھے۔ لیکن صرف یہی نہیں کہ قرآن کے الفاظ میں اُن کی اِس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ قرآن میں جہاں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق و سباق اور اندازِ بیان اس تاویل کو راہ دینے سے صاف انکار کرتا ہے۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ انہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اَہرامِ مصر سے لے کر نیو یارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجا ر کے لیے وہ ”جن“ اور ”شیاطین“فراہم نہیں ہوئے جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں؟

76. حضرت ایوبؑ کی شخصیت ، زمانہ ، قومیت ، ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے۔ جدید زمانے کے محققین میں سے کوئی ان کو اسرائیلی قرار دیتا ہے ، کوئی مصری اور کوئی عرب ۔ کسی کے نزدیک ان کا زمانہ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے کا ہے، کوئی انہیں حضرت داؤد و سلیمان کے زمانے کا آدمی قرار دیتا ہے ، اور کوئی ان سے بھی متأخر ۔ لیکن سب کے قیاسات کی بنیاد اُس سِفرِ ایّوب یا صحیفۂ ایّوب پر ہے جو بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں شامل ہے۔ اسی کی زبان ، اندازِ بیان، اورکلام کو دیکھ کر یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں ، نہ کہ کسی اور تاریخی شہادت پر۔ اور اس سِفرِ ایّوب کا حال یہ ہے کہ اس کے اپنے مضامین میں بھی تضاد ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان سے بھی اتنا مختلف ہے کہ دونوں کو بیک وقت نہیں مانا جا سکتا۔ لہٰذا ہم اس پر قطعًا اعتماد نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے زیادہ قابلِ اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حزقی ایل نبی کے صحیفوں میں ان کا ذکر آیا ہے، اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے زیادہ مستند ہیں۔ یسعیاہ نبی آٹھویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں۔ رہی ان کی قومیت تو سورۂ نساء آیت ۱۶۳ اور سورۂ انعام آیت ۸۴ میں جس طرح ان کا ذکر آیا ہے اس سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے، مگر وہب بن مُنَبِّہ کا یہ بیان بھی کچھ بعید ازقیاس نہیں ہے کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسُو کی نسل سے تھے۔

77. دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے ۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ”تُو ارحم الراحمین ہے“۔ آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ، کوئی عرض مدّعا نہیں ، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرزِ دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خوددار آدمی پے در پے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ”میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں“، آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے۔

78. سورۂ ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ، ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِ دٌ وَّشَرَابٌ ،” اپنا پاؤں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے نہانے کو اور پینے کو“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہی اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہوگئی۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جِلدی بیماری ہو گئی تھی ، اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا (ایوب ، باب ۲، آیت ۷)۔

79. اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اِس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں، اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے ۔لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفرِ ایّوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت ، اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اُس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں”نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا“۔”میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا“۔”میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی“۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ” قادرِ مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں ، میری رُوح انہی کے زہر کو پی رہی ہے ، خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں“۔ ”اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں؟ تُو نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تُو میرا گناہ کیوں نہیں معاف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دُور کر دیتا “؟”میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھیرا، مجھے بتا کہ تُو مجھ سے کیوں جھگڑتا ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے“؟ اُس کے تین دوست اسے آکر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں ، مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اِس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکوکار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں ، اور پھر کہتا ہے کہ خدا کےپاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سُن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ ”اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھیرایا“۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دوبدو بحث ہوتی ہے ۔ اِس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اُس صبرِ مجسّم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصّہ کچھ کہہ رہا ہے ، بیچ کاحصّہ کچھ ، اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکل آتا ہے ۔ تینوں حصّوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ابتدائی حصّہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز ، خدا ترس اور نیک شخص تھا، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ”اہلِ مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا“۔ ایک روز خدا کے ہاں اُس کے (یعنی خود اللہ میاں کے ) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہا ر کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے، وہ آپ کے منہ پر آپ کی ”تکفیر“ نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں۔ خدا نے کہا”اچھا، اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیو۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کر دیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا”ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو“۔ پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی۔ اُن کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا۔ شیطان نے کہا ، جناب ، ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی ”تکفیر“ کرے گا۔ اللہ میاں نے فرمایا، اچھا ، جا ، اُس کو تیرے اختیار میں دیا گیا ، بس اس کی جان محفوظ رہے۔ چنانچہ شیطان واپس ہوا اور آکر اس نے ”ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دُکھ دیا“۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا”کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مرجا“۔ اس نے جواب دیا”تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے ۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں“۔

یہ ہے سِفرِ ایّوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ۔ لیکن اس کے بعد تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بے صبری اور خڈا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے، اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خداکا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا۔ پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کر لینے کے بعد، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر ، ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں دور کر دیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دو چند دے دیتے ہیں۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ، اورپھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کر لیا ہے تا کہ شیطان کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔

یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے ، نہ خود حضرت ایوب کا۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصۂ ایوب کو بنیاد بنا کر ”یوسف زلیخا“ کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایُوب ، الیفز تَیمانی، سوخی بِلدو، نعماتی ضوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیریکٹر ہیں جن کی زبان سے نطامِ کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے ۔ اس کی شاعری اور اس کے زور ِ بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے ، مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفۂ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے کوئی معنی نہیں۔ ایوب علیہ السّلام کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا”یوسف زلیخا“ کا تعلق سیرت ِ یوسفی سے ہے، بلکہ شاید اُتنا بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصّے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں اُن میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہو گا جو اس زمانے میں مشہور ہوں گی، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہوگا جو اب ناپید ہے۔

80. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، سورۂ مریم، حاشیہ نمبر ۳۳۔

81. ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے”صاحب ِ نصیب“، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب ِ آخرت کے لحاظ سے صاحبِ نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے ۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ قران مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ۔ نام نہیں لیا گیا۔

مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس زمانے میں گزرے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرانام ہے (حالانکہ یہ صریحًا غلط ہے ، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے)، کوئی کہتا ہے یہ حضر ت الیاس ہیں، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ الیسع ہیں، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے ، سورۂ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ)، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے ، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشر تھا۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ”یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حِز قیال (حِزقِی اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (سن ۵۹۷ ق م) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابُور کے کنارے پر ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے“۔

ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں۔ موجودہ زمانے میں مفسرین نے اپنا میلان حِزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے ، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جاسکے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابلِ ترجیح ہو سکتی ہے، کیونکہ بائِیبل کے صحیفۂ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے ، یعنی صابر اور صالح ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے تھے۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل ابیِب تھا۔ اِسی مقام پر سن ۵۹۴ ق م میں حضرت حزقی ایل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے ، جبکہ ان کی عمر ۳۰ سال تھی، اور مسلسل ۲۲ سال ایک طرف گرفتارِ بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکا نے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کارِ عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال اُن کی بیوی ، جنہیں وہ خود ”منظورِ نظر“ کہتے ہیں، انتقال کر جاتی ہیں، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور یہ اپنا دُکھڑا چھوڑ کر اپنی مِلّت کو اُس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تُلا کھڑا تھا(باب ۲۴۔ آیات ۱۵ – ۲۷)۔ بائیبل کا صحیفۂ حزقی ایل اُن صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔

82. مراد ہیں حضرت یونس ؑ ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ”ذو النون“ اور ”صاحب الحوت“ یعنی ”مچھلی والے“ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا اُنہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا ، جیسا کہ سورۂ صافات آیت ۱۴۲ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، یونس، حواشی ۹۸ تا ۱۰۰۔ الصٰفّٰت، حواشی ۷۷ تا ۸۵۔

83. یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اِس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور اُن کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا۔

84. انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر تو عذاب آنے والا ہے، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تاکہ خود بھی عذاب میں نہ گھِر جاؤں۔ یہ بات بجائے خود تو قابلِ گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن ِ الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابلِ گرفت تھا۔

85. یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید۔

86. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، آل عمران آیات نمبر ۳۷ تا ۴۱ مع حواشی ۔ جلد سوم، مریم، آیات نمبر ۲ تا ۱۵ مع حواشی۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دُور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنا دینا ہے ۔ ”بہترین وارث تو تُو ہی ہے“، یعنی تُو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے۔

87. اس سیاق و سباق میں انبیاء کا ذکر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہے اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ حضرت زکریا کے واقعے کا ذکر کرنے سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ یہ سارے نبی محض بندے اور انسان تھے، اُلوہیت کا ان میں شائبہ تک نہ تھا۔ دوسروں کو اولاد بخشنے والے نہ تھے بلکہ خود اللہ کے آگے اولاد کے لیے ہاتھ پھیلانے والے تھے۔ حضرت یونس کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ ایک نبی اولو االعزم ہونے کے باوجود جب ان سے قصور سرزد ہو ا تو انہیں پکڑ لیا گیا۔ اور جب وہ اپنے رب کے آگے جھک گئے تو ان پر فضل بھی ایسا کیا گیا کہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال لائے گئے۔ حضرت ایوب کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ نبی کا مبتلائے مصیبت ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہے ، اور نبی بھی جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا ہی کے آگے شفا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ وہ دوسروں کو شفا دینے والا نہیں، خدا سے شفا مانگنے والا ہوتا ہے۔ پھران سب باتوں کے ساتھ ایک طرف یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ سارے انبیاء توحید کے قائل تھے اور اپنی حاجات ایک خدا کے سوا کسی کے سامنے نہ لے جاتے تھے، اور دوسری طرف یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی طور پر اپنے نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے، آغاز میں خواہ کیسی ہی آزمائشوں سے ان کو سابقہ پیش آیا ہو مگر آخر کار ان کی دعائیں معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں۔

88. مراد ہیں حضرت مریم علیہا السّلام۔

89. حضرت آدم علیہ السّلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ، فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سَا جِدِیْنَ، ( ص۔ آیات ۷۱ – ۷۲) ” میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں ، پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَا اِلیٰ مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ، (آیت ۱۷۱) ” اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا اور اس کی طرف سے ایک روح“۔ اور سورہ ٔ تحریم میں ارشاد ہوا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (آیت ۱۲)۔”اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اُس میں اپنی رُوح سے“۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائیش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے ، چنانچہ سُورۂ آل عمران میں فرمایا اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَ مَ ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ، (آیت ۵۹)۔ ” عیسیٰ کے مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا” ہوجا“ اور وہ ہو جاتا ہے“۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقۂ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ کسی کو براہِ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو ”اپنی روح سے پھونکنے“ کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ اس رُوح کی نسبت اللہ کی طرف غالبًا اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی شان رکھتا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، النساء ، حواشی ۲۱۲ – ۲۱۳۔

90. یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ”نشانی“ وہ کس معنی میں تھے ، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم ، حاشیہ نمبر ۲۱۔ اور سورۂ المومنون ، حاشیہ نمبر ۴۳۔

91. ”تم “ کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو! تم سب حقیقت میں ایک ہی اُمت اور ایک ہی ملت تھے، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے وہ سب ایک ہی دین لے کر آئے تھے، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا ربّ ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے وہ اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے۔ اُ س کی کوئی چیز کسی نے لی، اور کوئی دوسری چیز کسی اور نے، اور پھر ہر ایک نے ایک جُز اُس کا لے کر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں ۔ اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں ۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنا ڈالی، اور انسانیت میں یہ مِلتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے ، محض ایک غلط خیال ہے۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف مِلّتیں اپنے آپ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں ، اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملّتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے ۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے۔